
اسلام آباد (نیوزڈیسک) نگراں حکومت نے نئی آنے والی حکومت کیلئے معاشی روڈ میپ وضع کرتے ہوئے پی آئی اے سمیت خسارے کا شکار اداروں کی نجکاری پر زور دے دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے ماہانہ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں آئی ایم ایف سے جلد نئے قرض پروگرام کے لئے معاہدہ ناگزیر قرار دے دیا گیا، اپنی رپورٹ میں وزارت کا کہنا ہے کہ غیرمقبول فیصلوں سے معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہے، نئی حکومت ایف بی آر کی تنظیم نو کیلئے ضروری اصلاحات کرے، حکومتی ملکیتی اداروں میں گورننس اور مالی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی، مشکل اصلاحات کیلئے آئی ایم ایف سے میڈیم ٹرم سہولت لینا ہوگی۔
وزارت خزانہ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ نگران حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت اہداف پورے کیے، جولائی تا دسمبر 1500 ارب روپے پرائمری سرپلس رہا، آئی ایم ایف کے 0.5 فیصد ہدف کے مقابلے پرائمری سرپلس 1.5 فیصد رہا، پہلے 7 ماہ میں برآمدات 9.3 فیصد اضافے سے 18 ارب ڈالر رہیں، جولائی تا دسمبر ایف بی آر کے ریونیو میں 29.8 فیصد اضافہ ہوا اور 5149 ارب وصولی کی گئی، نان ٹیکس ریونیو میں 116.5 فیصد اضافہ ہوا، جولائی تا دسمبر 1979 ارب روپے وصول کیے گئے، مالی خسارہ 43 فیصد اضافے سے 2407 ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔
اسی حوالے سے عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام اپریل میں ختم ہونے کے بعد متنازعہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی کمزور مینڈیٹ کی حامل حکومت کو نئے پروگرام کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوگا، پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی کافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اگر آئی ایم ایف سے بروقت نیا معاہدہ نہ ہوا اور دیگر پارٹنرز سے قرض نہ مل سکے تو دیوالیے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
موڈیز کا کہنا ہے کہ سماجی دباؤ اور ناقص گورننس آئی ایم ایف معاہدے اور دیگر معاملات میں بے یقینی پیدا کرسکتے ہیں، اگر آئی ایم ایف سے بروقت معاہدہ ہوجائے اور دیگر بائی لیٹرل اور ملٹی لیٹرل پارٹنرز سے بغیر کسی تاخیر کے قرضے مل جائیں تو دیوالیہ کے خطرات دور ہوجائیں گے، تاہم ان قرضوں کے حصول کیلئے پاکستان کے سماجی حالات فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔
Comments