Social

مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوﺅں کو عوام تسلیم کرنے کو تیار کیوں نہیں. ماہرین معاشی امور

اسلام آباد(نیوزڈیسک) حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری اور مہنگائی میں کمی کے دعوﺅں کے باوجود عام شہری کیوں پریشان ہیں؟وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ملک میں مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 11اعشاریہ 8 فیصد تک گر گئی جو گذشتہ سال 38 فیصد تھی ان اعداد و شمار کے جاری ہونے سے پہلے اور بعد میں حکومت دعوے کررہی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے.

مہنگائی میں کمی سے عام پاکستانی کو کوئی ریلیف ملاہے، ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ آمدن اور اخراجات میں فرق بڑھتا جارہا ہے ایک طرف حکومت کچھ چیزوں پر ریلیف دیتی ہے تو دوسری جانب بجلی ‘گیس یا پیٹرول کی قیمتو ں میں اضافہ کرکے وہ ریلیف کئی گنا سود کے ساتھ واپس لے لیتی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا مسلہ توانائی خصوصا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہے لیکن اس پر کنٹرول حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہے.
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا40 فیصد زیادہ اس وقت خط غربت سے نیچے ہے یعنی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مارکیٹ میں پرائس کنٹرول نظام بھی کمزور ہو چکا اور حکومت کے اعلی عہدیداروں کی جانب سے مارکیٹ میں جا کر نرخوں کو چیک کرنا‘چھاپے مارنا‘نرخوں پر عمل درآمد کے اعلانات سے اس سسٹم کو چلانے والا انتظامی مشنری کا نظام غیر موثر ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اگر چیزوں کی قیمت میں کمی ہو بھی تو اس کا فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ پاتا.
برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی “کی مہنگائی کے حوالے سے خصوصی رپورٹ کے مطابق معاشی امور کے ماہرڈاکٹرمنور نے سابق وزیرخزانہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی وزیراعظم یا وزیراعلی قیمتیں چیک کرنے یا نرخوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے بازاروں میں افسرشاہی‘میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی فوج لے کر نہیں جاتے آپ کے پاس ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور تحصیل میں اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر موجود ہیں اس کے علاوہ اضلاع اور تحصلیوں میں دیگر متعلقہ محکمے بھی ہیں.
وزیراعظم یا وزیراعلی جب بازاروں میں چھاپے ماریں گے تو انتظامی مشنری کا مورال ڈاﺅن ہوگا آپ ان کو جواب دہ بنائیں مگر بدقسمتی سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہمارے ہاں اس طرح کی شعبد بازیاں ہر دور میں ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ جہاں تک مہنگائی میں کمی کے ”ثمرات“عوام تک نہ پہنچنے کا سوال ہے تو آپ دس روپے کا ریلیف اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں دیتے ہیں اور بجلی‘گیس یا پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے دس روپے کے سو روپے کرکے واپس لے لیتے ہیں یہ محض اعدادوشمار کی شعبدبازی ہے ‘آپ عام شہری سے صرف ریلیف میں دیئے گئے دس روپے ہی نہیں بلکہ اس میں نوے روپے کا اضافہ کرکے واپس لے کر کہتے ہیں مہنگائی میں کمی ہورہی ہے.
انہوں نے کہا کہ آمدن اور اخراجات کے درمیان جو خسارہ عام آدمی براشت کررہا ہے اس کو کوئی ادارہ ‘وزارت یا حکومت تذکرہ نہیں کرتی اجناس کی قیمتوں میں اتارچڑھاﺅ موسم‘فصلوں کی تیاری سمیت بہت ساری وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے مثال کے طور پر عیدالاضحی کے بعد دو تین ہفتے گوشت کی ڈیمانڈمارکیٹ میں انتہائی کم سطح پر چلی جائے گی تو ادارہ شماریات اسے بھی مہنگائی میں کمی شمار کرئے گا‘گندم درآمد اسکینڈل میں قومی خزانے کو300ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو جبکہ اس سے کہیں زیادہ نقصان کسان کو ہوا جس کی گندم کا منڈی میں خریدرکوئی نہیں‘ا مارکیٹ میں گندم سرپلس ہونے ‘حکومت کی جانب سے خریداری نہ کیئے جانے سے مارکیٹ میں قیمتیں گرنا فطری بات تھی مگر حکومت اسے اپنی کامیابی قراردے تو شرمناک ہے کیونکہ مجموعی طور پر جو5/6سو ارب روپے کا نقصان قومی حزانے کو پہنچا ہے وہ اسی قوم کی ملکیت ہے جسے 5/7روپے کلو آٹا سستا دینے کا کریڈٹ آپ لے رہے ہیں.
ماہرمعاشیات علی خضر کا کہنا ہے کیونکہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ نہیں ہوا اس لیے لوگوں کی آمدن بھی نہیں بڑھی جس کی وجہ سے مہنگائی کی رفتار میں کمی کے باوجود لوگ اب بھی فکر مند ہیں ان کے مطابق اگلے ایک دو سال میں مشکل لگتا ہے کہ لوگوں کے معاشی مسائل حل ہو پائیں گے یوسف سعید نے کہا کہ ملک میں گذشتہ دو سال میں غربت بڑھی دوسری جانب جی ڈی پی گروتھ بھی کچھ خاص نہیں ہوئی جس کی وجہ سے لوگوں کی آمدن بھی نہیں بڑھ پائی جبکہ دوسری جانب مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی.
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ جس کا بجلی کا بل پچھلے سال10ہزار روپے تھا اس سال بجلی کا استعمال کم کرنے کے باوجود بل 22/23ہزار تک پہنچ گیا ہے‘یہی صورتحال گیس کے بلوں کی ہے یہاں امراءکی نہیں بلکہ عام پاکستانی شہریوں کی بات ہورہی ہے ‘جو لوگ دو سال پہلے ایک اے سی چلا کر گزارہ کرلیتے تھے دو سالوں سے وہ پنکھوں میں گرمیاں گزاررہے ہیں مگر بل بڑھتے ہی جارہے ہیں گذشتہ چند مہینوں میں صرف انھیں گندم کی قیمت میں کمی دیکھنے کو ملی ورنہ دودھ، دہی، سبزیوں کے ساتھ بچوں کے سکول کی فیس اور علاج کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور عام شہریوں کے لیے گھریلو اخراجات چلانا مشکل ہوتا ہے.
مالیاتی امورکے ماہر یوسف سعید کا کہنا ہے کہ وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی ابھی بھی ہو رہی ہے تاہم جس طرح گذشتہ سال دیکھا گیا تھا کہ مہنگائی بہت تیزی سے اوپر گئی تھی اب ایسا نہیں ہوا یوسف سعید نے بتایا کہ مہنگائی ہر دور میں بڑھتی رہی ہے اور معیشت کے اصولوں کے تحت اس میں اضافہ بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ مارکیٹ میں چیزوں کی ڈیمانڈ موجود ہے اور ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے چیزیں تیار کرنا پڑتی ہیں، جو معیشت میں گروتھ کو فروغ دیتی ہیں اگر انفلیشن نہ ہو تو اس کی مخالف چیز”ڈی فلیشن“ ہے جس کا مطلب ہے کہ ڈیمانڈ ہی ختم ہو گئی تو گروتھ کہاں سے آئے گی تو اس وقت پاکستانی معیشت ”ڈی فلیشن“کا شکار ہے.


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv