Social

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز کا آئی پی پیز کو کھربوں روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان

اسلام آباد(نیوزڈیسک) فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے آئی پی پیز کو کھربوں روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے سابق نگران وفاقی وزیر تجارت اور فیڈریشن کے سربراہ گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ایف پی سی سی آئی سپریم کورٹ میں درخواست دائرکرے گی سپریم کورٹ سے صورتحال میں مداخلت کی درخواست کریں گے.
انہوں نے کہا کہ صورتحال ہرپاکستانی کے حق زندگی کو متاثر کررہی ہے پاکستان چند سالوں میں ایک ہی غلطیاں دوبارہ نہیں برداشت کر سکتا سابق وزیر نے کہا کہ وہ خوشحالی کے لیے صرف بدانتظامی کا خاتمہ چاہتے ہیں مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوچکی ہے.

انہوں نے کہا کہ بجلی کی زیادہ قیمت شہریوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور کاروبار کو دیوالیہ کر رہی ہے حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی بقاء زیادہ اہم ہے یا 40خاندانوں کے لیے یقینی منافع ضروری ہے واضح رہے کہ کچھ روز پہلے گوہر اعجاز نے وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری سے آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیوں کا ریکارڈ مانگا تھا ایک پریس ریلیز میں سابق وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کیا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی.

علاوہ ازیں انہوں نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں آئی پی پیزکا فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ82فیصد آئی پی پیزحکومت پاکستان اور پاکستانی شہریوں کی ملکیت ہیں لہذا ان 82فیصد کمپنیوں سے معاہدوں کا ازسرنوجائزہ لے کر کپیسٹی چارجزکو ختم کیا جاسکتا ہے غیرملکی کمپنیوں سے اگلے مرحلے میں بات چیت کی جاسکتی ہے مگر حکومت کی ملکیت اور مقامی پاور کمپنیوں سے تو بغیرکوئی وقت ضائع کیئے بات چیت ہوسکتی ہے.
ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو ادا کی گئی کیپیسٹی پیمنٹس کا ریکارڈ بھی پبلک کیا جائے آئی پی پیز کی پیداواری لاگت کا ڈیٹا عوام کے سامنے رکھا جائے‘ آئی پی پیز کو فیول کی مد میں ادا کی گئی رقوم کے بارے بتایا جائے اور آئی پی پیز کی جانب سے صارفین سے کی گئی وصولیوں کا ڈیٹا بھی عوام کے سامنے رکھا جائے. گوہر اعجاز نے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں کس نرخ پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے؟ بجلی کی اصل قیمت 30 روپے فی یونٹ سے کم ہونی چاہیے آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کیا جائے یاد رہے کہ ٹیک اینڈ پے ایک معاہدہ ہے جو خریدار کو کسی بھی پروڈکٹ کو لینے کا پابند بناتا ہے اور اگر پروڈکٹ نہیں لی جاتی ہے تو ان کو ایک مخصوص رقم ادا کرنا پڑتی ہے.
سابق وزیر گوہر اعجازکاکہنا تھا کہ حکومت جہاں سے سستی بجلی ملے وہاں سے خرید لے 52 فیصد آئی پی پیز حکومتی ملکیت میں ہیں حکومتی آئی پی پیز 50 فیصد سے کم پیداواری صلاحیت پر چلائے جا رہے ہیںحکومتی آئی پی پیز صارفین سے 100 فیصد کیپسٹی چارجز وصول کر رہے ہیں48 فیصد آئی پی پیز 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں. واضح رہے کہ وفاقی وزیربجلی اویس لغاری بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ صارف کے میٹرتک بجلی پہنچانے پر دس روپے سے بارہ روپے تک کے اخراجات آتے ہیں جن میں بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیوں کے اخراجات بھی شامل ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجلی کے ہر یونٹ پر بلاامتیاز62فیصدتک اضافی اخراجات وصول کیئے جارہے ہیں جبکہ بزنس ریکارڈر نے ”نیپرا“کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا تھا کہ اضافی چارجز70فیصد تک ہیں‘ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی نااہلی ہے کہ وہ ایف بی آر کو چلانے میں ناکام ہے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی بجائے حکومت ٹیکس اہداف کو پورا کرنے کے لیے ایف بی آر کے ذریعے تمام تر بوجھ یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے عام شہریوں پر ڈال دیا جاتا ہے.


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv