
اسلام آباد(نیوزڈیسک) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے حکومت کو مطالبات کی منظوری کیلئے 2روز کا وقت دیدیا،ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے،ہم مطالبات منوا کر ہی جائیں گے،مشرف،پی پی پی،ن لیگ،پی ٹی آئی سب نے آئی پی پیز سے معاہدے کئے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان حافط نعیم الرحمٰن نے راولپنڈی میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کی نااہلی کا عذاب پوری قوم بھگت رہی ہے۔
آئی پی پیز حکومت کی مجبوری نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے لیکن ممکن نہیں رہا کہ لوگ بھاری بل کے ساتھ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔چھوٹے کاروباری تو چھوڑیں اب تو بڑے کاروباری بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری صنعت نہیں چل رہی ہے۔
کیوں کہ حکومت کی جو ظالمانہ پالیسی ہے اس کے نتیجے میں صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ یہ لوگ کھانے پینے کی چیزوں پر بھی ٹیکس لگادیتے ہیں انہوں نے بنیادی اشیائے خوردونوش پر 18 فیصد تک ٹیکس لگادیا۔
بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگادیا اس کے بعد لوگ کچھ کھائیں، پیئے، بل دیں یا گھر کا کرایہ دیں۔حکومت یہ بات کہتی ہے کہ ہماری مجبوری ہے یہ مجبوریاں نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے جو پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ جب کہ ہمارے وزرا یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم آئی پی پیز سے بات نہیں کرسکتے۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاہدے اور حقائق قوم کے سامنے نہیں لائے جاتے یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم وہ معاہدے قوم کے سامنے نہیں لاسکتے آپ قوم کا خون نچوڑ سکتے ہیں، بل زیادہ کرسکتے ہیں لیکن معاہدے سامنے نہیں لائے جاسکتے۔
یہ معاہدے پیپلزپارٹی کے دور حکومت سے شروع ہوئے، پہلے 35 کمپنیوں سے معاہدے ہوئے اور پھر مشرف دور میں 45 کمپنیوں اور پھر نوازشریف کے زمانے میں تقریباً 120 کمپنیوں سے بات ہوئی۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی تقریباً 30 سے 35 کمپنیوں سے بات ہوئی اور اس وقت بھی 100 سے 124 آئی پی پیز کی فہرست آتی ہے۔ ان معاہدوں میں جو ظلم انہوں نے کیا کہ اس حوالے سے ایک آئی پی پی کا حوالہ دیتا ہوں جو اس وقت چل رہی ہے۔
حکومت کہتی ہے آپ آر ایل این جی پر اس کو چلائیں۔ اس کا جو ایف سی سی ہوتا ہے یعنی فیول کی قیمت 24.01 کلو واٹ فی گھنٹہ ہے جو مئی کے مہینے میں ادا کی گئی اور جون میں 24.78 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ پڑا، اگر یہ امپورٹڈ کوئلہ پر بھی لیتے تو 16.82 اور 15.53 پڑتا۔ اس کا مطلب تقریبا 7 سے 9 روپے کا فرق ہے اور اگر یہ تھرکول پر ہوتا تو یہ مزید 40 فیصد کم ہوتا۔گزشتہ روز ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ، گورنرز تمام وزرا اور سرکاری افسران 1300 سی سی گاڑیاں استعمال کریں، وزیراعظم فوری طور پر اس حوالے سے اعلان کریں، اس اعلان سے انہیں کون روک رہا ہے حالانکہ صرف اس ایک اقدام سے پاکستانی قوم کو ایک سال کے اندر تقریباً 350 ارب روپے کا فائدہ ہوسکتا ہے۔
ان گاڑیوں کا خرچہ سرکار کی جیب سے نہیں بلکہ عوام ادا کررہی ہوتی ہے۔ تنخوا دار کا ٹیکس کٹ رہا ہوتا ہے تو ان کی گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے بلوں میں ٹیکس کی صورت میں یہ پیسے وصول کرتے ہیں۔
Comments