
اسلام آباد(نیوزڈیسک) چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کیس میں قراردیا ہے کہ ملک قبضہ گروپوں کے ہاتھوں یرغمال ہے‘ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ساری حکومت آج عدالت میں کھڑی ہے لیکن معلوم کچھ نہیں، نیشنل پارک کو مجموعی طور پر بچانا ہے قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے.
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں، سچ بتائیں چیئرمن وائلڈ لائف بورڈ کے نوٹیفکیشن کے پیچھے کون ہے، کس کے کہنے پر نوٹیفکیشن جاری ہوا؟جس پر سیکرٹری کابینہ نے جواب دیا کہ چیئرمن وائلڈ لائف کی تبدیلی کے احکامات وزیر اعظم نے جاری کیے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سیکرٹری کابینہ نے الزام وزیر اعظم پر لگا دیا ہے، سیکرٹری کابینہ نے بھائی کو بچانے کے لیے الزام وزیر اعظم پر عائد کردیا، انہوں نے وزیر اعظم کو بس کے نیچے دھکا دے دیا ہے.
انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ مارگلہ ہلز سے متعلق حکم کے بعد سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا پھر یہ پروپیگنڈا کون کر رہا ہے،چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے بھائی لقمان علی افضل کدھر ہیں جس پرسیکرٹری کابینہ نے جواب دیا کہ نہیں معلوم وہ کدھر ہیں چیف جسٹس نے کہاکہ پروپیگنڈا کی جنگ سپریم کورٹ کے خلاف کیوں چل رہی ہے.
عدالت نے وکیل مخدوم علی خان اور سلمان اکرم راجہ کی عدم حاضری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سینئر وکیل حکم امتناع لینے دو منٹ میں آجاتے ہیں مگر حکم امتناع کے بعد سینئر وکیل نظر نہیں آتے بعد ازاں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کس کی ملکیت ہے، مارگلہ نیشنل پارک اللہ کا تحفہ ہے. سپریم کورٹ نے چیئرمین کیپٹیل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی کے اشتہارات دیکھے ہیں، چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی کے اشتہارات پہلے نہیں دیکھے تھے لیکن جب معاملہ میرے علم میں آیا تو ایکشن لیا اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ساری شاہراہ دستور پر نجی سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں چیئرمین سی ڈی اے کب ایکشن لیں گے، کیا جب عوام ہاﺅسنگ سوسائٹی سے لٹ جائیں گے پھر سی ڈی اے ایکشن لے گی، اس پر چیئرمین سی ڈی اے بتایاکہ نجی ہاﺅسنگ سوسائیٹی خیبر پختونخواہ میں آتی ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی میں فرد جرم عائد کریں؟ اسلام آباد میں کئی جگہوں پر ہاﺅسنگ سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں.
نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی کے وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ ہماری سوسائٹی خیبرپختونخوا میں ہے اورہماری ہاﺅسنگ سوسائٹی کے درجنوں اشتہارات اسلام آباد میں لگے ہیں، سی ڈی اے کے افسر نے رابطہ کرکے سوسائٹی کے مالک سے اسپانسر مانگا تھا چیف جسٹس قاضی فائز عیسی استفسار کیا کہ سی ڈی اے کے کس افسر نے رابطہ کیا، وکیل نے جواب دیا کہ یہ میرے علم میں نہیں ہے چیف جسٹس نے کہا کہ مارگلہ ہلز میں آپ سوسائٹی کیسے بنا رہے ہیں، وکیل نے جواب دیا کہ میرے موکل کی اپنی ملکیتی اراضی ہے اس پر منصوبہ شروع کیا عدالت نے دریافت کیا کہ زمین کی ملکیتی دستاویزات کدھر ہیں .
ہاﺅسنگ سوسائٹی کے وکیل نے کہا کہ ملکیتی دستاویزات میرے موکل کے پاس ہیں جس پرچیف جسٹس نے ہدایت کی کہ شاہ صاحب اپنے موکل کو بلالیں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مارگلہ ہلز کے معاملہ پر وزارت داخلہ، وزارت کابینہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور سی ڈی اے ملوث ہیںبعد ازاں وکیل شاہ خاور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے موکل ڈیڑھ گھنٹے میں سپریم کورٹ پہنچ جائیں گے چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے موکل کا نام کیا ہے وکیل نے بتایا کہ میرے موکل کا نام صدیق انور ہے چیف جسٹس نے کہاکہ اپنے موکل کا پورا نام بتائیں، جس پر شاہ خاور نے بتایا کہ میرے موکل کا پورا نام کیپٹن صدیق انور ہے اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا آپ کے موکل کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں، آپ کے موکل نے اپنے ایڈریس میں جی ایچ کیو کیوں لکھا ہے، آپ کے موکل نے نام کے ساتھ ریٹائرڈ بھی نہیں لکھا، کیا آپ کا موکل تاثر دے رہا ہے کہ ہاﺅسنگ منصوبہ فوج کا ہے، اس کے بعد عدلت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا‘وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس ملک میں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ساری حکومت آج عدالت میں کھڑی ہے لیکن معلوم کچھ نہیں، نیشنل پارک کو مجموعی طور پر بچانا ہے، اٹرانی جنرل نے کہا کہ خوبصورتی ساری مارگلہ ہلز کی ہے انہوں نے کہاکہ ملک اب لینڈ مافیا کے حوالے ہے، سپریم کورٹ پر سب سے پہلے ہم نے انگلی اٹھائی تھی 10,10 سال سے خلاف قانون بیٹھنے والوں کو واپس بھیجا، ڈیپوٹیشن والوں کو واپس کرنے پر بھی شور مچا کہا گیا کہ چیف جسٹس نے یہ کردیا وہ کردیا یہاں ذاتی حملہ کرا لو، گالی گلوچ کر الو بس، میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں.
ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی لیکن اگر سیکرٹری کابینہ نے سچ نہ بولا تو نتائج بھگتیں گے، زندگی میں کبھی ایک پلاٹ نہیں لیا‘جو خریدا اپنی کمائی سے خریدا چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کیمرہ پکڑو اور ہوگیا یوٹیوب چینل شروع ہر بندہ یہاں ایک ایجنڈے پر چل رہا ہے چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے ہمارے پاس کوئی میڈیا ٹیم نہیں جو دفاع کر سکے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر اعظم ہاﺅس کو درخواست آئی کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تصوراتی بات لگتی ہے، سی ڈی اے وزارت ہاﺅسنگ کے ماتحت ہے یہ بات سمجھ بھی آتی ہے لیکن پلاننگ اور ہاﺅسنگ کا وزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے، ہم تو کہہ رہے ہیں سی ڈی اے کو بھی وزارت داخلہ سے نکال دیں.
انہوں نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو وزارت تعلیم کو وزارت ریلویز میں ڈال دیں، کیوں نہ وزارت داخلہ کو نوٹس کریں، سارا گند ہی ختم ہو جائے گا، پارلیمان کس لیے ہوتا ہے، پارلیمان میں ایسے موضوعات پر بحث کیوں نہیں ہوتی، اگر ایسا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کردیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کا نہیں آرٹیکل 99 کے تحت رولز آف بزنس بنتے ہیں جس سے معاملات چلائے جاتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات تو کر سکتے ہیں، کوئی طاقتور آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا سی ڈی اے کو میری وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پلاٹس وغیرہ کے بھی معاملات ہوتے ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے چیئرمین سی ڈی اے سے استفسار کیا آپ کی کیا رائے ہے، کیا سی ڈی اے کو وزارت داخلہ کے ماتحت رہنا چاہیے، چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ سی ڈی اے کو وزارت داخلہ سے عملدرآمد کرنے کے لیے پاور مل جاتی ہے، پولیس اور انتظامیہ بھی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کیا کہ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے، آپ اتنے اہل نہیں ہیں کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروا سکیں، اگر ایسی بات ہے تو ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو پولیس پکڑ لے گی‘جرمنی‘ فرانس‘ امریکا‘ بھارت سمیت کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہو رہا ہے اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ رولز آف بزنس کے تحت فیڈرل گورنمنٹ ڈویژنز کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کرتی رہتی ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے.
Comments