
اسلام آباد (نیوزڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی دھرنے کیلئے این او سی کے اجرا اور تاجروں کی یکجا درخواستوں پر قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف نے اگر وفاقی دارالحکومت میں جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ کو نئی درخواست دے،اگر جلسے کی اجازت دیں گے تو یقینی بنائیں گے کہ سڑکیں بلاک نہ ہوں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی دھرنے کیلئے این او سی کے اجرا اور تاجروں کی درخواستوں پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس عامر فاروق اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت عمران خان پر جلسے کے دوران حملے کے خدشہ کی رپورٹ رپورٹ عدالت میں میں پیش کی گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جلسے کی اجازت کی درخواست تو غیرموثر ہو چکی ہے،اب تو وہ کاز آف ایکشن ہی ختم ہو چکا ہے جس پر درخواست دائر ہوئی تھی،انتظامیہ کو نئی درخواست دینی ہے،مسئلہ حل نہ ہو تو نئی پٹیشن بھی دائر کر سکتے ہیں۔
یہ انتظامیہ کا اختیار ہے کہ انہوں نے ڈی چوک کی اجازت دینی ہے یا ایف نائن پارک کی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ان کو تو پتہ بھی نہیں کہ لانگ مارچ نے کب اسلام آباد پہنچنا ہے۔پی ٹی آئی کے معاون وکیل نے کہا کہ ہم اس معاملے پر انتظامیہ کو آج ہی درخواست دے دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تاجروں کی درخواست پر کیا کریں،ابھی راستے بند تو نہیں کئے؟عدالت انتظامیہ کو ڈائریکشن دے سکتی ہے کہ قانون کے مطابق کام کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس سول اور آرمڈ فورسز کو طلب کرنے کا اختیار ہے،عمران خان پر جلسے کے دوران حملے کے خدشہ کی رپورٹ رپورٹ عدالت میں میں پیش کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق عمران خان پر حملے کے خدشات ہیں،اگر انہوں نے کہہ دیا کہ راستے بند نہیں ہوں گے تو ٹھیک ہے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ احتجاج کرنا سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کا حق ہے،عام شہریوں اور پٹیشنرز تاجروں کے بھی حقوق ہیں جو متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔پی ٹی آئی نے اگر جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ کو نئی درخواست دے،اگر جلسے کی اجازت دیں گے تو یقینی بنائیں گے کہ سڑکیں بلاک نہ ہوں،انتظامیہ نے یقینی بنانا ہے کہ عوام کے حقوق متاثر نہ ہوں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی کر دی۔
Comments