
اسلام آباد(نیوزڈیسک) اسپیشل جج سینٹرل اسلام آباد نے متنازع ٹویٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی کی درخواست ضمانت خارج ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔چھ صفات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے مصدقہ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ریاستی اداروں کے خلاف مہم چلائی۔انہوں نے افواج پاکستان کے افسران کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی۔
اعظم سواتی نے ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت پر مبنی ٹویٹ متعدد بار کیے، انہوں نے عوام کو اداروں کے خلاف اکسایا۔افواج پاکستان کے افسران کے خلاف اعظم سواتی کی ٹویٹ کو کئی لوگوں نے ریٹویٹ کیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی پر لگی دفعات پر کم از کم سات سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل اعظم سواتی پر ریاستی اداروں کے خلاف بیان دینے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انہوں نے بار بار ریاستی ادارے کے افسر کے خلاف ٹویٹ کی۔اعظم سواتی نے ایک ہی جرم کو دوہرایا ہے لہذا ان کی درخواست ضمانت خارج کی جاتی ہے۔خیال رہے کہ بدھ کو سماعت کے دوران پراسیکیوٹر رضوان عباسی عدالت میں پیش ہوئے اورٹویٹر پر اکاؤنٹ ویریفیکیشن کا طریقہ کار بتاتے ہوئے کہاکہ اعظم سواتی کے اکاؤنٹ پر بلو ٹِک ہے، انہیں مشہور شخصیات نے ٹویٹر پر فالو کیاہوا،اعظم سواتی کو فالو کرنے والوں میں مشہور سیاسی اور صحافتی شخصیات شامل ہیں،اعظم سواتی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کبھی انکاری نہیں ہوئے، اعظم سواتی نے افواجِ پاکستان کے خلاف ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے،پراسیکیوٹر رضوان عباسی اور سرکاری وکیل نے اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کی۔
اعظم سواتی کے وکیل سہیل خان سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ٹویٹس کے سکرین شارٹس پر سائبر کرائم کا مقدمہ نہیں بنتا۔وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں عدالت نے اعظم سواتی کی درخواست ضمانت خارج کرنے کا حکم سناتے ہوئے کہاکہ اعظم سواتی نے ایک ہی جرم دو بار کیاہے۔
Comments