
کراچی (نیوزڈیسک) سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ہماری اتحادی ہے ساتھ لیکر چلیں گے۔ تفصیلات کے مطابق بلاول ہاؤس میں مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی آمد سے قبل پیپلز پارٹی کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں آصف زرداری کو پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بریفنگ دی۔
اجلاس کی صدارت پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کی۔ اجلاس میں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ ، ناصر شاہ شرجیل، مرتضی وہاب اور دیگر شریک ہوئے۔ اجلاس میں ایم کیوایم پاکستان کے تحفظات پر غور کیا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعلی سندھ نے معاملے پر بریفننگ دی۔
زرائع کے مطابق وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے حکومت کی پوزیشن سے آگاہ کیا۔ اس حوالے سے پارٹی رہنماؤں نے بتایا کہ ہم نے ماضی میں کئی دفعہ ایم کیو ایم کے کہنے پر الیکشن کمیشن کو خطوط لکھے جبکہ بلدیاتی الیکشن کرانا یا ملتوی کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے پارٹی رہنماوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا سندھ حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی۔
بعدازاں آصف علی زرداری نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہماری اتحادی ہے، ان کے ساتھ لیکر چلیں گے۔ بلاول ہاؤس کراچی اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس جاری واضح رہے کہ حلقہ بندیوں کے تنازع پر حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے علحیدگی ہونے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ایم کیو ایم پاکستان کے تحفظات دور کرنے کے لیے اجلاس طلب کیا اور بلاول ہاؤس کراچی میں اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس جاری ہے۔
ایم کیو ایم وفد کی سربراہی خالد مقبول صدیقی کررہے ہیں جبکہ وفد میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری ، وفاقی وزیر فیصل سبزواری ، وسیم اختر ، جاوید حنیف خواجہ اظہار الحق شامل ہیں۔ اجلاس کی صدارت سابق صدر آصف علی زرداری کررہے ہیں جبکہ حکومت سندھ کی قانونی ٹیم نے بلدیاتی الیکشن سے متعلق وفد کو بریفنگ دی ہے۔ سندھ حکومت کی قانونی ٹیم بریفنگ نے بتایا کہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کا دباؤ ہے اور الیکشن کمیشن احکامات نہ ماننے کی صورت میں صوبائی حکومت خلاف ایکشن لے سکتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن انتظامات کے متعلق خود جائزہ لے رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق قانونی ٹیم نے وفود کو بریفنگ دی کہ حلقہ بندیاں فوری طور پر ممکن نہیں ہے، نئی حلقہ کم از کم چار سے ماہ درکار ہوسکتے ہیں جبکہ ووٹرز کے ردو بدل اور یوسیز ردو بدل معمولی عمل نہیں ہے۔
Comments