
اسلام آباد (نیوزڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے کیس ڈسچارج کرنے کی استدعا کردی، انہوں نے عدالت میں کہا کہ ایف آئی آر کو قانون مان لیا گیا تو انسانی حقوق کی خلاف ہوگی، ان کا مئوقف ہے کہ اگر کوئی تنقید کرے گا تو بغاوت کا مقدمہ درج کردیا جائے۔
انہوں نے عدالت میں اپنا مئوقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ میری باتوں کا غلط مطلب لیا گیا، میں دھمکی نہیں دے رہا تھا صرف سمجھا رہا تھا، میں کسی اجتماع سے نہیں بلکہ میڈیاٹاک کررہا تھا۔
میرے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرکے مجھے نیلسن منڈیلا اور بھگت سنگھ بنا دیا گیا،آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف بھی ایسی باتیں ہوتی تھیں، وہ لوگ بھی جب حقوق کی بات کرتے تھے تو ریاست مخالف بنا دیا جاتا تھا۔
فواد چودھری نے کہا کہ پارٹی کا ترجمان ہوں جو بھی بات کرتا ہوں پارٹی پالیسی ہوتی ہے، ضروری نہیں میں جو بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو، الیکشن کمیشن نہ کوئی اسٹیٹ ہے اور نہ ہی حکومت ہے،الیکشن کمیشن پر تنقید نہیں کرسکتے تو مطلب کسی پر تنقید نہیں کرسکتے، ایسے پھر کوئی بھی تنقید نہیں کرسکے اور ایسے جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔
سینئر وکیل، پارلیمنٹرین اور سابق وفاقی وزیر ہوں، میں کوئی دہشتگرد نہیں ہوں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھا گیا۔اسی طرح اے آروائی نیوز کے مطابق اسلام آباد ایف ایٹ کچہری میں فواد چودھری کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، جس میں تفتیشی افسر نے عدالت سے فواد چودھری کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی ہے۔ اس موقع پر فواد چودھری کو عدالت میں پیش کیا گیا، پولیس نے کمرہ عدالت میں بھی فواد چودھری کی ہتھکڑی نہیں کھولی، جس پر فواد چودھری کے وکلاء نے عدالت سے فواد چودھری کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کی۔
فواد چودھری نے کہا کہ باہر 1500پولیس اہلکار تعینات ہیں پھر بھی عدالت کے اندر ہتھکڑی لگائی ہوئی ہے ، اسلام آباد پولیس سے کہیں اس طرح کا رویہ اختیار نہ کریں، میں سپریم کورٹ کا وکیل بھی ہوں اس طرح کا برتاوٴنہ کیا جائے۔ہتھکڑی کھولی جائے، 5منٹ وکلاء اور 5منٹ فیملی سے بات کرنی ہے۔
Comments