آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ آئی جی تعیناتی کاتنازع ختم ہونا چاہیے،پولیس کے بہترین مفاد میں رضاکارانہ عہدے سے الگ ہونا چاہتا ہوں۔سندھ ہائی کورٹ میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے تحریری جواب میں کہا ہے کہ موجودہ حالات اور پولیس کے بہترین مفاد میں رضاکارانہ طور پر آئی جی کے عہدے سے الگ ہونا چاہتا ہوں ۔جواب میں کہا گیا کہ ضروری ہے آئی جی کی تعیناتی کے حوالے سے تنازع کو فوری ختم کیا جائے۔عدالت سے درخواست کرتا ہوں میرانام اس درخواست سے نکالا جائے تاکہ وفاقی حکومت سے اپنی سروسز سندھ حکومت سے واپس لینے کی درخواست کرسکوں ۔انہوں نے کہا کہ ایک سال کے دوران سندھ پولیس میں اہم اصلاحات کے ساتھ محکمے میں 20 ہزارنئی بھرتیاں کیں۔ پولیس ملازمین کی ترقیوں کے لئے موثر نظام تشکیل دیا ہے۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی طرف سے شہاب اوستو ایڈوکیٹ نے وکالت نامہ جمع کروانے کے ساتھ ساتھ مقدمے سے حکم امتناع ختم کرنے کی بھی درخواست عدالت میں دائر کی۔آئی جی سندھ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اے ڈی خواجہ نے پولیس میں نگرانی کا نظام موثر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے۔اس تنازع کی وجہ سے ہر واقعہ کے حوالے سے فیصلہ کرنے اور اسکے نتائج کی ذمہ داری آئی جی پر آجاتی ہے اور ان حالات میں اے ڈی خواجہ رضاکارانہ طور پر پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں۔ اس کیس میں حکم امتناع ختم کرکے میرے موکل کا نام مدعا علیہان کی فہرست سے نکالے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اس موقع پرعدالت نہ تو مدعا علیہان کی فہرست سے نام نکال سکتی ہے اور نہ ہی حکم امتناع ختم کرسکتی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 2002 کا پولیس آرڈر ڈکٹیٹر کا دیا ہوا قانون تھا جو ایمرجنسی ختم ہوتے ہی ختم پوچکا تھا۔ 1935 سے ریگولر پولیس، ولیج پولیس، ریلوے پولیس اور رینجرز صوبائی معاملہ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 1973 میں رینجرز اور ریلوے پولیس صوبوں سے واپس لے لیے گئے ہیں جبکہ ولیج پولیس کا نظام ختم ہوگیا ہے۔ اب صوبے کے پاس صرف ریگولر پولیس رہ گئی ہے۔ وفاق یہ اختیار بھی واپس لینا چاہتا ہے۔عدالت نے حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔
Comments