واشنگٹن/تل ابیب(نیوزڈیسک) اسرائیل نے ایران پر براہ راست حملہ کرکے ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے امریکا کو قائل کرنے کی کوششوں کو تیزکردیا ہے ‘اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو جنگ کو جاری رکھنے کا عزم باربار دہرا چکے ہیں اور طاقتور صیہونی لابی کی جانب سے ان پر شدید دباﺅ ہے کہ وہ ایران پر براہ راست حملہ کرکے اس کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کردیا جائے .
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے درمیان آج ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں ایران کے میزائل حملے پر اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی زیربحث رہی ہے وائٹ ہاﺅس کی جانب سے جو بائیڈن اور نتن یاہو کے درمیان ہونے والی بات چیت کو ”نتیجہ خیز“ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ دونوں راہنماﺅں نے آنے والے دنوں میں رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا ہے.
امریکی نائب صدر اور اگلے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس بھی اس گفتگو میں شامل تھیں اس ٹیلیفونک رابطے کے کچھ دیر بعد اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کا حملہ مہلک‘ عین نشانے پر اور سب سے بڑھ کر حیران کن ہوگا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تمام صورتحال کے پیچھے دو قوتیں کار فرما ہیں ایک تو جو بائیڈن کی امریکہ کو ایران کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں ملوث کرنے میں ہچکچاہٹ جو ان کے خیال میں غیر ضروری اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے دوسری جانب اسرائیل میں طاقتور انتہاپسندلابی کا خیال ہے کہ یہ ان کے پاس اپنے جانی دشمن ایران کو ناقابل تلافی پہنچانے کا ایک سنہری موقع ہے.
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو پر امریکی خواہشات کو نظر انداز کرنے کے لیے سب سے زیادہ دباﺅ سابق وزیراعظم نفتالی بینیٹ کی جانب سے ہے جنہیں اسرائیل کی حکمران اشرافیہ میں ایک طاقتور شخصیت سمجھا جاتا ہے. بینیٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ایران کے خلاف کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے ا ن کا دباﺅ ہے کہ یہ حملہ کرنے کے لیے موزوں ترین وقت ہے اور وہ عوامی حلقوں کو بھی اس کے لیے ابھار رہے ہیں دوسری طاقتور اور بااثرشخصیت حزب اختلاف کے رہنما اور اسرائیلی افواج کے سابق سربراہ جنرل بینی گینٹز کی طرح بینیٹ کا بھی خیال ہے کہ حزب اللہ اور حماس کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے ایران اس وقت بہت کمزور ہے.
برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ایران کے پاس اپنے دفاع کے لیے حزب اللہ اور حماس کی شکل میں دو ہتھیار تھے یہ دونوں تنظیمیں کسی بھی ممکنہ حملے کے خلاف اس کے لیے انشورنس پالیسی کی طرح تھے لیکن اب وہ دونوں بازو کافی حد تک غیر موثر ہو چکے ہیں بینیٹ کی نظر میں یہ ایران کو حقیقی نقصان پہنچانے کا بہترین موقع ہے وہ کہتے ہیں کہ ایرانی ریاست بالآخر ناکام ہو جائے گی لیکن ان کی نظر میں اس کام کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو اس بات قوی امکان ہے کہ وہ اپنی ریاست کو بچانے کے لیے اسے استعمال کرسکتا ہے.
بینیٹ کے خیال میں یہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایک ڈراﺅنے جوہری خواب میں بدل دے گا ان کے خیال میں 1981 میں عراق اور 2007 میں شام میں جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں نے مشرق وسطیٰ کو زیادہ محفوظ بنا دیا تھا بینیٹ کہتے ہیں کہ لوگ ان اقدامات کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے لیکن اسرائیل نے دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے لیس بشار الاسد سے بچایا ہے.
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے پاس دنیا کی بدترین حکومتوں کی جوہری تنصیبات کو ختم کرنے کا کام ہے جس کا کوئی صلہ نہیں ہے. انہوں نے کہاکہ ہر کوئی ہم پر تنقید کرنا پسند کرتا ہے لیکن پھر بھی ہم یہ کام کر رہے ہیں اور اگر وہ بم حاصل کر لیتے ہیں تو یہ سب کے لیے مسئلہ ہوگا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ لندن والے اس وقت کیسا محسوس کریں گے جب ایٹمی بم سے لیس بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہو گا ہم ایسا ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے.
امریکی صدر بائیڈن غزہ میں بھی اسرائیلی جارحیت روکنے سے بظاہر گریزاں دکھائی دیتے تھے مگر فلاڈیلفیا راہداری کے معاملے نے امریکی کردار پر بہت سارے سوال کھڑے کیئے ہیں کیونکہ اس راہداری سے غزہ کے لوگوں کو فائدہ تو نہیں پہنچا البتہ اسرائیل کو انہیں گھیر کر نشانہ بنانے کا موقع ضرورملا اب امریکی صدر بیانات کی حد تک اسرائیل کو لبنان میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے پر زور دے رہے ہیں جبکہ اسرائیلی جنگی جہازروزانہ دارالحکومت بیروت سمیت دیگر علاقوں میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور امریکی جانب سے فراہم کردہ بھاری میزائل اور اسلحہ بارود لبنانی شہریوں پر برسا رہے ہیں.
صدر بائیڈن کا موقف ہے کہ اسرائیل کو ایرانیوں کو جواب دینے کے لیے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے نہیں کرنا چاہیے امریکہ کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے والا نہیں ہے صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے ایرانی جوہری تنصیبات یا اس کی تیل کی صنعت پر حملہ نہیں کرنا چاہیے امریکہ کو ڈر ہے کہ کہیں اسے ایک ایسی میں جنگ میں شامل نہ ہونا پڑے جس میں وہ شامل ہونا نہیں چاہتا اور ایسے خدشات بھی ہیں کہ اگر ایران اس حملے کو سہہ گیا تو وہ ہر صورت جوہری وار ہیڈ تیار کرے گا .
مشرق وسطی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پھیلتی جنگ کے اگلے مراحل کا دارومدار اسرائیل کی جوابی کارروائی پر ہے جو اب کسی بھی دن ہو سکتا ہے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات چیت سے متعلق وائٹ ہاﺅس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ لبنان بالخصوص بیروت کے گنجان آباد علاقوں میں شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے.
امریکی صدر کی جانب سے لبنانی اور اسرائیلی شہریوں کو محفوظ طریقے سے ان کے گھروں تک واپس بھیجنے کے لیے سفارتی اور مزاکراتی عمل کو بحال کرنے پر بھی زور دیا گیا صدربائیڈن نے ایک بار پھر اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے کی واضح طور پر مذمت کی اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے عزم کا اعادہ کیا وائٹ ہاﺅس کی جانب سے دونوں راہنماﺅں کی ٹیلیفونک گفتگو سے متعلق جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے مستحکم تعلقات اور انتظامی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے پر بھی اتفاق کیا ہے.
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اندرعوامی سطح پر صورتحال تشویشناک رخ اختیار کررہی ہے کیونکہ طاقتور انتہاپسند صیہونی لابی جنگ کے نقارے بجارہی ہے اور اسرائیلی شہریوں کو ابھار رہی ہے کہ وہ بلاخیرایران پر براہ راست مہلک حملے کریں ‘اسرائیلی ذرائع ابلاغ بھی اس مہم میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں ‘ان کا کہنا ہے کہ ایران پر براہ راست اسرائیلی حملہ پوری دنیا کے امن کو تباہ کرسکتا ہے انتہا پسند اپنے اگلے مطالبے ”گریٹراسرائیل“کے قیام کے لیے بھی نہ صرف اسرائیلی عوام کی ذہن سازی کررہے ہیں بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کی کھل کر وکلالت کی جارہی ہے اور مغربی دنیا میں اسرائیل کے حامیوں کے ذریعے مغربی اقوام کی ذہن سازی کی جارہی ہے .
ماہرین کا کہنا ہے خلیجی ممالک کی اس سارے معاملے میں خاموشی اور خود کو صرف مذمتی بیانات تک محدود رکھنے کی پالیسی اسرائیلی عزام کو شہہ دی رہی ہے اور طاقتور عرب ملکوں سمیت تمام مسلمان ممالک ایران اسرائیل تنازعے سے لاتعلق نظرآتے ہیں حتی کہ مسلمان ممالک میں شہریوں کو غزہ اور لبنان میں مسلمانوں کے قتل عام پر احتجاج کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے اور اس پر ایک غیراعلانیہ پابندی ہے اسی طرح مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ پر اس سلسلہ میں کوئی سنجیدہ گفتگو یا مکالمہ نظرنہیں آتا اور بیشترمسلمان ملکوں میں شہریوں کو اس تنازعے کے بارے میں معلومات مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ سے مل رہی ہیں.
Comments