کابل(نیوزڈیسک) افغانستان میں طالبان کی وزارت اخلاقیات نے نیوز میڈیا پر تمام جانداروں کی تصاویر شائع کرنے پر پابندی کے قانون پر بتدریج عملدرآمد کا اعلان کر دیا غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق وزارت کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب طالبان کی حکومت نے حال ہی میں اسلامی قوانین کی سخت تشریحات کے لیے باقاعدہ قانون سازی کا اعلان کیا تھا جو 2021 میں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نافذ کیے گئے تھے.
وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے بتایا کہ یہ قانون پورے افغانستان کے لیے ہے اور اس پر بتدریج عمل درآمد کیا جائے گا‘ حکام لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے کام کریں گے کہ جاندار چیزوں کی تصاویر اسلامی قوانین کے خلاف ہیں سیف الاسلام خیبر نے کہا کہ قانون کے نفاذ میں جبر کی کوئی جگہ نہیں ہے. انہوں نے کہا کہ یہ صرف نصیحت ہے لوگوں کو قائل کرنا ہے کہ یہ چیزیں واقعی شریعت کے خلاف ہیں اور اس سے بچنا چاہیے اس نئے قانون میں نیوز میڈیا کے لیے کئی قواعد و ضوابط کی وضاحت کی گئی ہے جن میں تمام جاندار چیزوں کی تصاویر کی اشاعت پر پابندی کے ساتھ ساتھ میڈیا آﺅٹ لیٹس کو حکم دیا گیا ہے کہ انہیں اسلام کا مذاق نہ اڑایا جائے.
نئے قانون کے پہلوو¿ں کو ابھی تک سختی سے نافذ نہیں کیا گیا ہے جس کے تحت عوام کو جانداروں کی تصاویر لینے کی ممانعت کی گئی ہے طالبان کے حکام باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی تصاویر شیئر کرتے رہتے ہیں اور افغان صحافیوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ قانون کے اعلان کے بعد انہیں حکام کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں.
وزارت اطلاعات نے فوری طور پر نشریاتی ادارے کی تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا سیف الاسلام خیبر نے کہا کہ اب تک میڈیا سے متعلق قانون کے آرٹیکلز کے حوالے سے، بہت سے صوبوں میں اس پر عمل درآمد کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن تمام صوبوں میں اس کا آغاز نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ جنوب میں طالبان کے گڑھ قندھار اور ہمسایہ صوبہ ہلمند کے ساتھ ساتھ شمالی تخار میں اس پر کام شروع ہو گیا ہے.
حالیہ قانون کے اعلان سے قبل قندھار میں طالبان اہلکاروں پر جانداروں کی تصاویر اور ویڈیوز لینے پر پابندی عائد تھی تاہم یہ قانون نیوز میڈیا کے لیے نہیں تھا لیکن اب یہ سب پر لاگو ہوتا ہے وسطی صوبہ غزنی میں حکام نے مقامی صحافیوں کو طلب کیا اور انہیں بتایا کہ اخلاقی پولیس آہستہ آہستہ اس قانون پر عمل درآمد شروع کر دے گی. 1996 سے 2001 تک طالبان کے سابقہ دور حکومت میں ملک بھر میں ٹیلی ویژن اور جانداروں کی تصاویر پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن اقتدار میں واپسی کے بعد سے اب تک اس طرح کا حکم وسیع پیمانے پر نافذ نہیں کیا گیا ہے تاہم 2021 کے بعد سے حکام نے کاروباری مالکان کو سنسرشپ کے کچھ قوانین پر عمل کرنے پر زوردیا ہے جیسے اشتہارات میں مردوں اور عورتوں کے چہروں کو ڈھانپا جائے جب طالبان حکام نے دو دہائیوں کے بعد ملک کا کنٹرول حاصل کیا تو افغانستان میں میڈیا کے 8ہزار 400 ملازمین تھے میڈیا انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق اب صرف 5 ہزار 100 اس پیشے میں رہ گئے ہیں.
Comments