Social

نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ حکومتی پالسیوں اور گورنس کے مسائل کو قراردیدیا،رپورٹ

اسلام آباد(نیوزڈیسک)نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کی طلب میں اضافے کی صلاحیت میں زیادہ سرمایہ کاری، تھر کوئلے کے منصوبوں کی توسیع میں تاخیر اور چھتوں پر شمسی توانائی کو اپنانے کی حوصلہ شکنی صارفین کے لیے نرخوں میں اضافے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کا اہم سبب ہے.


انگریزی جریدے”ڈان“ کی رپورٹ کے مطابق جنریشن سیکٹر کے چیلنجز پر اپنی خصوصی رپورٹ میں نیپرا نے حکومت اور بجلی کمپنیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ چھتوں پر شمسی توانائی کے نظام کو چیلنج کے بجائے ان کے فوائد کو نوٹ کرتے ہوئے اسے حل کے طور پر دیکھیں جن میں صفر نقصانات اور کیپسٹی پیمنٹس شامل نہیں ہیں نیپرا کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی موجودہ صلاحیت اکثر کم استعمال ہوتی ہے آئی جی سی ای پی (طویل المدتی اشارتی پیداواری صلاحیت میں توسیع کا منصوبہ) تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد سالانہ چند گھنٹوں سے بھی کم وقت کے لیے ہونے والی طلب کو پورا کرنا ہے.
نیپرا نے کہا کہ منصوبہ بندی کے اس نقطہ نظر نے حکومت کی معاشی کارکردگی کے بارے میں خدشات کو جنم دیا بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں ضرورت سے زیادہ سرمایہ کاری جو کبھی کبھار استعمال کی جاتی ہے مجموعی لاگت میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے اور پاور سیکٹر میں بجلی کی زیادہ لاگت کا مسئلہ مزید خراب ہوسکتا ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2024 کے اختتام پر نیشنل گرڈ سسٹم میں نصب پیداواری صلاحیت 42 ہزار 512 میگاواٹ تھی جب کہ سسٹم کی زیادہ سے زیادہ طلب 30 ہزار 150 میگاواٹ اور کم از کم طلب 7 ہزار 15 میگاواٹ تھی لیکن یہ نظام محدود مدت کے لیے زیادہ سے زیادہ 25 ہزار 516 میگاواٹ کا لوڈ برداشت کرنے کے قابل تھا اوسط سالانہ لوڈ کی ترسیل 18 ہزار 463 میگاواٹ تھی.
نیپرا کے مطابق اگر سپلائی سائیڈ یعنی پیداواری صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ طلب کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جو سالانہ صرف چند گھنٹوں تک رہتی ہے تو اس سے بجلی کے شعبے کی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے اس طریقہ کار کے نتیجے میں صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ کم طلب کے دوران صلاحیت کا کم استعمال ہونا ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اضافی پیداواری صلاحیت کی موجودگی کے ساتھ ساتھ طلب میں اتار چڑھاﺅ اور نظام کی زیادہ سے زیادہ طلب کو مستقل طور پر پورا کرنے میں ناکامی ایک اہم چیلنج ہے ناکافی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے درمیان صلاحیت اور حقیقی طلب کے درمیان عدم توازن بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور اس شعبے پر مالی بوجھ ڈالنے کا ایک اہم عنصر ہے.
نیپرا نے افسوس کا اظہار کیا کہ 30 جون 2024 تک 45 ہزار 888 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے باوجود کئی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں مسلسل لوڈ شیڈنگ ہوئی بجلی کے شعبے کے اس تضاد کی جڑیں مجموعی تکنیکی اور تجارتی (اے ٹی اینڈ سی) نقصانات میں ہیں جو ناقابل قبول طور پر زیادہ اور غیر منصفانہ ہیں اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں نااہلیوں اور گورننس کے چیلنجز کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے ٹی اینڈ سی کے زائد نقصانات بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر بجلی چوری کی وجہ سے ہوتے ہیں جو اکثر نگرانی اور مقامی آپریشنل طریقوں میں کمزوریوں کے ساتھ ساتھ انفرااسٹرکچر کی ناقص دیکھ بھال اور ناکافی بلنگ اور محصولات جمع کرنے کے نظام کی وجہ سے ہوتے ہیں ریگولیٹر کی قانونی کارروائیوں اور سزاﺅں کے باوجود یہ خطرہ جاری ہے جس کے نتیجے میں فروخت میں منفی اضافہ، نیٹ میٹرنگ پر اثر اور آف گرڈ سلوشنز کی طرف منتقلی ہوتی ہے.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ڈسکوز نیٹ میٹرنگ میں رکاوٹ نہیں ڈالتیں، تو روف ٹاپ سولرائزیشن سے 2031 تک قابل تجدید توانائی کو مزید 3 ہزار 420 میگاواٹ تک بڑھانے کے حکومتی ہدف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی واضح رہے کہ قبل ازیں ایک رپورٹ میں نیپرا نے انکشاف کیا تھا کہ صارفین سے فی یونٹ 20روپے ایسے چارجزکے نام پر وصول کیئے جارہے ہیں جو غیرضروری اور غیرمنصفانہ ہیں جنہیں ختم کرکے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ20روپے تک کمی کی جاسکتی ہے.


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv