
نئی دہلی(نیوزڈیسک)بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں امریکہ نے کردار ادا کیا، امریکہ کے پاکستان اور بھارت دونوں سے رابطے تھے ، کئی اور ملک بھی رابطے کر رہے تھے،ایک انٹرویو میں بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ معمول کی بات ہے کہ جب دو ممالک کشیدگی میں مبتلا ہوں تو دوسرے ممالک فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں اور مداخلت کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ فطری بات ہے کہ 2 ملک تنازع میں گھرے ہوں تو دیگر ممالک رابطے کر کے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہیں لیکن جہاں تک جنگ بندی کا تعلق ہے تو یہ بات پاکستان اور بھارت دونوں کے درمیان براہ راست طے ہوئی ہے۔بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے امریکی کردار کو مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔
بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت فائربندی قطعی طور پر دوطرفہ تھی، امریکی صدر ٹرمپ کا جنگ بندی میں کوئی کردار نہیں تھا۔
خیال رہے کہ بھارت نے یوٹرن لیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی سے انکار کردیاتھا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے جنگ بندی میں امریکی کوششوں کاسرے سے ہی انکار کردیاتھا۔ بھارتی پارلیمان میں ایک اہم اجلاس کے دوران پاک بھارت جنگ بندی کے معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیاتھا۔
بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھاکہ پاک بھارت سیز فائر قطعی طور پر دوطرفہ تھی۔ امریکی صدر ٹرمپ کا جنگ بندی میں کوئی کردار نہیں تھا۔بھارتی سیکرٹری خارجہ نے کہا تھاکہ ٹرمپ نے ہم سے بیچ میں آنے کی اجازت نہیں لی، ٹرمپ خود ہی اسٹیج پر آنا چاہتے تھے اور وہ آگئے۔انہوں نے کہا تھاکہ امریکی صدر نے سات بار سیز فائر کا دعویٰ کیا، لیکن انہوں نے بھارت سے کوئی اجازت نہیں لی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ خود کو مرکزِ توجہ بنانا چاہتے تھے، جب کہ مودی حکومت نے ایسا کوئی کردار تسلیم نہیں کیاتھا۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان تنازع روایتی جنگ کے دائرے میں رہا اور پاکستان سے کسی بھی ایٹمی یا حملے کے اشارے نہیں ملے تھے۔ اسلام آباد سے کسی ایٹمی دھمکی یا اشارے کے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔بھارتی میڈیا کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے بار بار پوچھا گیا کہ پاکستان سے جنگ میں کتنے بھارتی طیارے تباہ ہوئے تھے لیکن وکرم مسری قومی سلامتی کا بہانہ بنا کر جواب دینے سے انکار کرتے رہے تھے۔
Comments