
اسلام آباد (نیوزڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن معاہدے کے تحت عالمی استحکام فورس میں پاکستانی فوجی بھی شامل ہونے کا امکان ہے، اس حوالے سے حکومت و عسکری اداروں کے درمیان مشاورت حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے اور حکومت نے فورس میں شمولیت پر آمادگی کا عندیہ دے دیا۔ انگریزی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع سے موصول اطلاعات میں حکومت اس فورس میں شمولیت کی طرف مائل نظر آتی ہے اور اس حوالے سے جاری مشاورت میں پاکستان کے اس مشن میں حصہ لینے کے اشارے ملے ہیں۔
ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ ہم غزہ کے امن ڈھانچے کے اصل حامیوں میں شامل تھے اب پیچھے ہٹنا اس منصوبے کو ترک کرنے کے مترادف ہوگا، اب یہ صرف سیاسی نہیں اخلاقی فریضہ بھی ہے، ویسے بھی پاکستان کا بین الاقوامی امن مشنز میں کردار مثالی رہا ہے، پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز میں سب سے زیادہ فوجی اہلکار بھیجنے والے ممالک میں شامل ہے۔
اے آر وائی نیوز کے ایک پروگرام میں اس حوالے سے جب وفاقی مشیر رانا ثناءاللہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے اگر افواجِ پاکستان کو موقع ملتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے، اگر وہاں تعینات کی جانے والی امن فورس میں پاکستانی فورسز بھی ہوں تو یہ سعادت کی بات ہوگی کیوں کہ پاکستان ان 8 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ وہاں پر امن قائم ہونا چاہیئے، امن فورس کے پاس اس کا انتظام ہونا چاہیئے، وہاں سے اسرائیلی فوج کا انخلاء ہونا چاہیئے، وہاں امن قائم کرنے کیلئے اگر پاکستان کی افواج کو موقع ملتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کوئی بہتر چیز ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی خارجہ امور و دفاعی کمیٹی کے ارکان کو گزشتہ ہفتے ایک بند کمرہ اجلاس میں دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ آئی ایس ایف انڈونیشیا، آذربائیجان اور پاکستان کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی، یہ فورس غزہ میں داخلی سکیورٹی اور امن و امان برقرار رکھنے کے علاوہ اسرائیل کی سرحدی حفاظت اور ہتھیاروں کی سمگلنگ روکنے میں مدد کرے گی۔
بتایا جارہا ہے کہ امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے میں آئی ایس ایف کا قیام شامل ہے، جو زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجی اہلکاروں پر مشتمل ہوگی، اس فورس کے مینڈیٹ میں داخلی سکیورٹی برقرار رکھنا، حماس کو غیر مسلح کرنا، سرحدی گزرگاہوں کی حفاظت اور عبوری فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں انسانی امداد و تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا شامل ہوگا، ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ خود تو امریکی فوجی اہلکار غزہ بھیجنے سے انکار کرچکی ہے لیکن انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکیہ اور آذربائیجان سے اس کثیر القومی فورس میں شرکت کی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ ترکیہ کے فوجی دستوں کی شمولیت پر اسرائیل کی طرف سے اعتراض اٹھائے جانے اور اس پر امریکہ کی رضامندی کے بعد پاکستان کا نام شامل کیا گیا کیوں کہ اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سار نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے اسرائیل مخالف رویے کو جواز بناتے ہوئے ترکیہ کی آئی ایس ایف میں شمولیت کی مخالفت کی تھی جس پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اشارہ دیا کہ وہ ترک افواج کے کسی بھی کردار کے سخت مخالف ہوں گے اور کہا کہ غزہ میں کن غیر ملکی افواج کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، اس کا فیصلہ اسرائیل خود کرے گا۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ رپورٹس ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے مصر اور اردن کا دورہ کیا، یہ دونوں ممالک غزہ میں جنگ بندی کے بعد کے معاملات میں گہرا کردار ادا کر رہے ہیں، مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے مشرقِ وسطیٰ میں استحکام اور کشیدگی کم کرنے میں مصر کے مرکزی کردار کو سراہا، انہوں نے غزہ میں انسانی بحران ختم کرنے کے لیے مصر کی انتھک کوششوں کی بھی تعریف کی جب کہ مصری صدر نے پاکستان کے دنیا اور امتِ مسلمہ کے اہم معاملات میں مثبت اور متحرک کردار کو سراہا۔
فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اردن میں فیلڈ مارشل منیر کی بادشاہ عبداللہ دوم اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف میجر جنرل یوسف احمد الحنیتی سے ملاقاتوں کے دوران اردن کی قیادت نے خطے کے امن و استحکام کے لیے پاکستان کی خدمات کی تعریف کی، ان ملاقاتوں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، خاص طور پر دفاع اور سلامتی کے حوالے سے دوطرفہ تعاون کے فروغ اور علاقائی معاملات پر گفتگو کی گئی۔
Comments