
اسلام آباد (نیوزڈیسک) ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتے تاہم کسی جارحیت کا سخت اور شدید جواب دیا جائے ہوگا۔ فارن آفس سے جاری بیان کے مطابق پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا، تاہم توقع ہے افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے مگر دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
اسی طرح ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاک فوج دفاعِ وطن کے لیے پوری طرح پرعزم ہے، کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید انداز میں دیا جائے گا، امن کے قیام کے لیے ’فتنۂ خوارج‘ کو لگام دینا ناگزیر ہے۔
خیال رہے کہ ترکیہ میں امن مذاکرات کے دوران فریقین چھ نومبر تک جنگ بندی برقرار رکھنے پر متفق ہوگئے ہیں، جنگ بندی کی تصدیق کے لیے ایک مشترکہ نظام تشکیل دیا جائے گا، جب کہ امن کے قواعد و ضوابط اگلے اجلاس میں طے ہوں گے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طالبان رجیم پر واضح کردیا ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی اور کابل کو امن کی ضمانت دینا ہوگی۔
دوسری طرف پاکستانی حکام نے ہفتے کے روز پاک افغان سرحدی مقام طورخم کو صرف افغان پناہ گزینوں کے لیے دوبارہ کھول دیا، پاکستانی اور افغان حکام نے اس کی تصدیق کی ہے، دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے کہا کہ سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے جب تک کہ صورتحال میں بہتری نہیں آتی۔ ادھر افغان قونصل جنرل پشاور حافظ محب اللہ شاکر نے بتایا کہ ہزاروں افغان پناہ گزین طورخم کی بندش کے باعث سڑکوں کے کنارے پھنسے ہوئے ہیں اور انتہائی خراب حالات میں زندگی گزار رہے ہیں کیوں کہ طورخم پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے بڑی گزرگاہ ہے، اگر پناہ گزینوں کی بے دخلی جاری رہی، جب کہ سرحد بند ہے، تو واپسی کرنے والے افغانوں کے لیے حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوشہرہ سے طورخم تک سڑکوں پر سیکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں ہزاروں پناہ گزین موجود ہیں، ان کی حالت نہایت خراب ہے، کیوں کہ ان کے پاس پینے کا پانی، خوراک یا پناہ گاہ نہیں ہے، افغان اپنے کیمپ اور گھروں سے واپسی کے لیے نکلے تھے مگر طورخم کو دو ہفتوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بند رکھا گیا ہے اور اب یہ لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، جب تک طورخم دوبارہ نہیں کھلتا، انہیں اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جائے، اگر سرحد کھول دی جائے تو آپ انہیں جانے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
Comments