واشنگٹن(نیوزڈیسک) امریکی اور نیٹو افواج کے تقریباً 10,000 سپاہیوں کو فضائی مدد فراہم کرنے کیلئے امریکہ کے دو B-52 بمبار طیارے قطر کے الادید ہوائی اڈے پر پہنچ گئے ہیں امریکی محکمہ خارجہ نے افغانستان میں تعینات افواج کے انخلا کے تناظر میں لاحق خطرات کی وجہ سے کابل میں قائم اپنے سفارت خانے کے عملے سے کہا ہے کہ سفارتخانے کے وہ ملازمین جو کہیں دور سے بھی اپنا کام انجام دے سکتے ہیں، انہیں کابل چھوڑ دینا چاہیے.
اپنے ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے امریکی شہریوں کے لیے انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ افغانستان کا سفر نہ کریں، کیوں کہ افغانستان کے تمام علاقے اس وقت غیر محفوظ ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد اور باغی گروپوں کی جانب سے حملے، اغوا کرنے، یرغمال بنانے، خود کش حملے، وسیع پیمانے پر عسکری کارروائیوں کا خطرہ ہے. بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد، افغان اور امریکی کاروانوں اور تنصیبات پر حملوں کے منصوبے تیار کر رہے ہیں اور پہلے بھی سرکاری کارواں پر حملے کیے گئے ہیں ان حملوں کا نشانہ غیر ملکی سفارت خانے، غیر سرکاری تنظیموں اور غیر ملکی کاروباروں کے دفاتر اور یہاں تک کہ اسپتال اور رہائشی علاقے بھی بن سکتے ہیں.
ادھر افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان نے پچھلے کچھ مہینوں کے دوران افغانستان میں عوامی املاک کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا ہے انہوں نے صدارتی محل میں چار افغان صوبوں ہرات، بلخ، ننگر ہار اور قندھار میں ایک سو مختلف ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طالبان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھاکہ وہ پلوں کو کیوں تباہ کر رہے ہیں اگر وہ افغانستان کی تعمیر میں کوئی مثبت حصہ نہیں لے سکتے، تو انہیں املاک کو نقصان بھی نہیں پہنچانا چاہیے.
ادھر امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ اگر طالبان یا کوئی اور گروپ، انخلا کی تیاریوں میں مصروف امریکی یا نیٹو افواج کو نشانہ بناتا ہے، تو ان سے نمٹنے کے لیے امریکی فوج کے منصوبہ سازوں کے پاس بہت سے آپشنز موجود ہیں امریکی نشریاتی ادارے کے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق، آئندہ مہینوں میں افغانستان سے واپس آنے والے امریکی اور نیٹو افواج کے تقریباً 10 ہزار سپاہیوں کو فضائی مدد دینے کے لیے امریکہ کے دو B-52 بمبار طیارے قطر کے الادید ہوائی اڈے پر پہنچ گئے ہیں.
ان کے علاوہ امریکہ کے دو بمبار طیارے پہلے سے ہی وہاں موجود ہیں امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے یو ایس ایس ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کو ہدایات ملی ہیں کہ وہ انخلا کے آغاز تک خطے میں ہی رہے فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مختصر نوٹس پر بری افواج بھی کمک کے لیے روانہ کی جا سکتی ہیں پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ افغانستان میں فوج کی تعداد میں اضافے کے امکان کو مد نظر رکھنا چاہیے.
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی فرض کیا جا رہا ہے کہ طالبان اس انخلا کی مخالفت کر سکتے ہیں، گو کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایسا ہوان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کے لیے ایسے کسی بھی واقعے کے رونما نہ ہونے کو یقینی بنانا سب سے اہم ہے دوسرے انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکی فوج کی اتنی قابلیت اور اہلیت ہونی چاہئیے کہ وہ انخلا کے وقت اپنے لوگوں کی حفاظت کر سکے.
Comments