Social

ایٹمی معاہدے کی بحالی:ایران کا ویانا مذاکرات میں شرکت کا اعلان

لندن(نیوز ڈیسک) ایران کے چیف مذاکرات کار علی بقری کانی نے تصدیق کی ہے کہ ایران 29 نومبر کو ویانا میں مذاکرات میں شرکت کرئے گا اس حوالے سے بات چیت ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد سے معطل ہے کہا جارہا ہے 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات رواں ماہ شروع ہو جائیں گے.

برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا تاہم صدر جو بائیڈن کے انتخاب کے بعد امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے پر غور کر رہا ہے بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ویانا میں دیگر فریقوں، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، اور روس کے ہمراہ اس سلسلے میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کرے گا.
علی بقری کانی نے کہا کہ ایران نے غیر قانونی اور انسانیت دشمن پابندیوں کو ہٹانے کے لیے 29 نومبر کو ویانا میں مذاکرات میں شرکت کرنے سے اتفاق کر لیا ہے ادھر امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے کہا کہ اگر ایران کے نمائندے سنجیدہ ہیں تو جلد ہی یہ معاہدہ طے پا سکتا ہے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو توقع ہو گی کہ مذاکرات وہیں سے شروع ہوں جہاں گذشتہ جون میں پہنچ چکے تھے اور پھر تعطل کا شکار ہوئے.
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے توقع ہے کہ وہ ان مذاکرات میں سخت پوزیشن اختیار کریں گے مغربی ممالک کئی ماہ سے اس بات کے منتظر ہیں کہ ایران ان مذاکرات میں دوبارہ شامل ہو ان ممالک کا کہنا ہے کہ ایران میں جوہری پیش رفت اب اصل معاہدے سے تھوڑی نہیں کافی زیادہ ہے. 2015 میں ایران نے یورینیم کی افزودگی، اس کی کل مقدار، اور اس عمل میں استعمال ہونے والی مشینوں کے حوالے سے حدود کو تسلیم کیا تھا اس کے علاوہ ایران نے بین الاقوامی سطح پر ان چیزوں کی نگرانی پر بھی رضا مندی ظاہر کی تھی اس کے بدلے ایران کے خلاف پابندیاں ہٹائی گئیں.
یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے مطابق بالکل درست کام کر رہا تھا اور ایران اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہا تھا جب 2018 میں امریکہ کے صدر ٹرمپ اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دیں ان پابندیوں کے باعث ایران غیر ملکی بینکوں میں پڑے اپنے اربوں ڈالروں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا. ایران نے امریکہ کی معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے یور ینیم کی افزودگی کا عمل تیز کر دیا تھاایران پر امریکہ کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے ایران کا کہنا ہے پہلے ہونے والے معاہدے سے معاشی فوائد حاصل نہیں ہو رہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یورپی ممالک ایران پر امریکی دباﺅ کو کم کروائیں یورپی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، واشنگٹن اور تہران کے بیچ میں پھنس کر رہ گئے ہیں عالمی طاقتوں کا ماننا ہے کہ ایران ایک جوہری بم بنانا چاہتا ہے جبکہ ایرانی حکومت اس کی تردید کر چکی ہے.
مغربی مالک چاہتے ہیں کہ معاہدہ قائم رہے اور اس کے لیے انہوں نے سست روی سے ہی سہی مگر ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جو تہران تک ایسے امدادی سامان کے لیے ادائیگیوں میں آسانی پیدا کرے گا جن پر امریکی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا. دی جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن نامی اس منصوبے پر ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے اتفاق کیا تھا اس کے تحت ایران گذشتہ پندرہ سال میں افزودہ کی گئی یورینیم کی مقدار جو نہ صرف ریکٹر کے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے بلکہ جوہری ہتھیار بنانے میں بھی کام آتا ہے اور یورینیم افزودہ کرنے کے سیٹری فیوجز کی تعداد محدود کرے گا ایران نے ہیوی واٹر کی ایک فیسیلیٹی کو بھی تبدیل کرنے پر اتفاق کیا تاکہ یہاں بم تیار کرنے کے لیے پلوٹونیم نہ بنایا جا سکے.


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv