نیویارک( نیوز ڈیسک) روس نے عالمی منڈی میں تیل وگیس اپنی کرنسی میں فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ سعودی عرب چین سے تیل کی فروخت کی ادائیگی یوآن میں لینے پر غور کر رہا ہے عالمی منڈیوں میںیہ تاثر زور پکڑرہا ہے کہ پیٹرو ڈالر کے دور کے خاتمے کا آغاز ہورہا ہے ”پیٹرو ڈالر“ کی اصطلاح ستر کی دہائی میں استعمال میں آئی اور اس کے ساتھ ہی دنیا کے کاروبار میں بین الاقوامی لین دین کے لیے ترجیحی کرنسی کے طور پر ڈالر کی پوزیشن مستحکم ہوتی گئی.
امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی سے متعلق یہ خبر سعودی ذرائع کے حوالے سے سامنے آئی ہے سعودی عرب نے ابھی تک اس بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا ہے لیکن جیسے ہی یہ اطلاع منظرِ عام پر آئی تو یہ طے تھا کہ یہ بحث کچھ دنوں تک جاری رہے گی. توانائی کے ماہر ڈاکٹر انس الحاجی کا کہنا ہے کہ اس سال تیل کا عالمی کاروبار 2.6 ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے یہ بہت بڑی رقم ہو گی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس کرنسی میں تیل خریدا اور بیچا جائے گا اس میں اچھی خاصی لیکویڈیٹی ہونی چاہیے.
ان کا کہنا ہے کہ ڈالر ہی وہ کرنسی ہے جس کے ذریعے یہ کام بہترین طریقے سے کیا جا سکتا ہے اس کی اور بھی وجوہات ہیں ڈالر کی لیکویڈیٹی سب سے زیادہ ہوتی ہے اس کی شرح تبادلہ دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہے اور یہ پوری دنیا میں لین دین کے لیے سب سے زیادہ مقبول کرنسی ہے. تیل کے عالمی بحران کے کچھ عرصے بعد 1974 میں سعودی عرب کی حکومت نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نِکسن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت یہ طے پایا کہ سعودی عرب کی تیل کی برآمدات ڈالر میں ہوں گی اس معاہدے کے تحت سعودی عرب نے اپنی رقم امریکی ٹریڑری بانڈز میں لگائی سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان یہ معاہدہ دور رس اثرات کا حامل تھا کئی ممالک سعودی عرب کے نقش قدم پر چل پڑے اور پوری دنیا میں تیل کی قیمت ڈالر میں طے ہونے لگی یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے ممالک نے تیل خریدنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کو ڈالر میں رکھنا شروع کر دیا تاکہ وہ تیل اور ٹریڑری بانڈز خرید سکیں، مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کر سکیں اور دیگر غیر ملکی اشیا اور دیگر سازو سامان درآمد کر سکیں.
جریدے کے مطابق توانائی کے شعبے میں پبلشنگ کمپنی انرجی انٹیلی جنس کے سینیئر ایڈیٹر رفیق لٹا کا کہنا ہے کہ چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی سے متعلق یہ خبر سعودی ذرائع کے حوالے سے سامنے آئی ہے آج ہم جس عالمی معیشت کو دیکھ رہے ہیں اسے یہاں تک پہنچانے میں ڈالر کے ذریعے ہونے والے کاروبار کا اہم کردار ہے دنیا بھر کے ممالک جس رقم میں اپنے ذخائر رکھتے ہیں ان میں 60 فیصد سے زیادہ ڈالر میں ہیں.
ان کا کہنا تھا کہ امریکی طاقت کو بڑھانے میں پیٹرو ڈالر کی معیشت کا بڑا کردار ہے اور اس صورت حال میں کوئی بھی تبدیلی صرف اقتصادی پہلو تک محدود نہیں ہوگی اس کا براہ راست اثر عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات اور مساوات پر پڑے گا 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق چین اس وقت روزانہ ایک کروڑ بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے. اس میں سے 17 لاکھ بیرل سے زائد تیل سعودی عرب سے درآمد کیا جاتا ہے یہ چین کی تیل کی درآمدات کا تقریباً 17 فیصد ہے یہ سعودی عرب کی تیل کی کل برآمدات کا 26 فیصد ہے چین روس سے روزانہ 15 لاکھ بیرل تیل بھی درآمد کرتا ہے اس وقت چین دنیا بھر میں توانائی کا ایک بڑا صارف بن چکا ہے اس حقیقت نے تیل کی عالمی منڈی کا ڈھانچہ ہی بدل دیا ہے اب تیل کی منڈی میں چین ہی بڑے گاہک کے طور پر نہیں ابھرا بلکہ ایشیائی ممالک جیسے انڈیا، جاپان اور جنوبی کوریا بھی خام تیل کے بڑے گاہک بن کر ابھرے ہیں.
یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کا 77 فیصد ایشیائی منڈیوں میں جاتا ہے اور صرف دس فیصد یورپ جاتا ہے امریکہ میں روزانہ صرف پندرہ لاکھ بیرل تیل جاتا ہے امریکہ کا انحصار مقامی طور پر نکالے جانے والے تیل پر ہے اس حقیقت کے پیش نظر سعودی عرب، روس اور تیل برآمد کرنے والے دیگر ممالک اب چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ سٹریٹیجِک تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں.
اس کے ذریعے وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کا تیل ان اہم منڈیوں تک پہنچتا رہے تیل برآمد کرنے والے ممالک اس کے لیے چین، انڈیا، جنوبی کوریا اور جاپان میں ریفائنریز بنانا چاہتے ہیں اس سے تیل خریدنے والے ممالک کو خریداری کے طویل مدتی کانٹریکٹ ملتے ہیں سعودی کمپنی آرامکو نے حال ہی میں چین کے ساتھ پیٹرول کیمیکل کمپلیکس اور ریفائنری بنانے کے لیے شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں.
اس سے دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں سٹریٹجِک تعلقات قائم ہو سکتے ہیں ڈاکٹر الہاجی کا کہنا ہے کہ ڈالر کے بجائے دوسری کرنسی استعمال کرنے کی بحث 50 سال سے زیادہ پرانی ہے گذشتہ چند برسوں میں چینی کرنسی یوآن میں خریداری کی بحث بھی تیز ہو گئی ہے. رفیق لٹا کا کہنا ہے کہ دراصل یہ بات اب سامنے آ چکی ہے اور اس سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی ظاہر ہوتی ہے تیل کی عالمی منڈی کچھ عرصے سے اس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہی ہے جس میں روس کے یوکرین پر حملے سے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی ماحول کو بھی دیکھا جا رہا ہے اور آخری بات یہ کہ وہ چین کے ساتھ اپنے اہم تعلقات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب سے خریدے گئے تیل کی ادائیگی یوآن میں کی جائے تو یہ نظام سعودی عرب اور چین دونوں کے لیے انشورنس پالیسی جیسا ہو گا اس کے ساتھ اگر مستقبل میں کسی پابندی کی وجہ سے ڈالر میں تیل کے سودوں پر پابندی لگتی ہے تو یوآن بہترین متبادل ثابت ہو سکتا ہے.
ادھر برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ولادمیر پیوٹن نے کہا کہ قدرتی گیس کی روبیل میں ادائیگی کا منصوبہ ہی اصل نمونہ ہے جس کو دنیا کا سب سے بڑا ملک اہم اشیا کی برآمدات میں توسیع دے گا کیونکہ مغربی ممالک نے ڈالر کی قدر میں کمی کو روکنے کے لیے روس کے اثاثے منجمد کردیے ہیں رپورٹ کے مطابق روس کی معیشت کو 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے سب سے بدترین بحران کا سامنا ہے کیونکہ 24 فروری کو یوکرین پر صدر ولادمیر پیوٹن کے حملے کے سبب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں.
اس پر روس نے بنیادی اقتصادی ردعمل کے طور پر 23 مارچ کو روسی گیس کی برآمدات کی ادائیگی روبیل میں کرنے کا اعلان کردیا تھا البتہ یہ اسکیم خریداروں کو معاہدہ شدہ کرنسی میں ادائیگی کرنے کی اجازت دیتی ہے جسے گیزروم بینک کے ذریعے روبیل میں تبدیل کیا جاتا ہے. کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ون کو گیس کی ادائیگی کے نظام کے لیے روبل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ نظام کا اصل نمونہ ہے پیسکوف نے کہا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسے سامان کے نئے گروپوں تک بڑھایا جائے گا تاہم انہوں نے اس عمل کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا دمتری پیسکوف نے کہا کہ مغرب کا مرکزی بینک کے 30 ارب ڈالر کے ذخائر کو منجمد کرنے کا فیصلہ ایک ڈکیتی ہے جس نے پہلے ہی عالمی ریزرو کرنسیوں کے طور پر امریکی ڈالر اور یورو پر انحصار سے رو کو دوریاں بڑھانے پر مجبور کردیا ہے.
انہوں نے کہا کہ کریملن 1944 میں مغربی طاقتوں کے ذریعے قائم کیے گئے بریٹن و±وڈز کے مالیاتی ڈھانچے کی شکل بدلنے کے لیے ایک نیا نظام چاہتا ہے کریملن کے ترجمان نے کہا کہ گوکہ یہ اس مالیاتی نظام کے اطلاق میں وقت ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ہم ایک نئے نظام کی طرف آئیں گے جو بریٹن ووڈز سسٹم سے مختلف ہے.
Comments