Social

حکومت کے خلاف بغیر ثبوت الزام قابل سزا ہوگا، طالبان

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) افغانستان میں حکمران طالبان نے ایک نیا فرمان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد قابل سزا ہوں گے جو ”امارات اسلامی افغانستان" کے علماء اور سرکاری ملازمین کے خلاف کسی ثبوت کے بغیر الزامات عائد کرتے ہیں خواہ یہ اشاروں کے ذریعہ ہو یا الفاظ کے ذریعہ یا کسی اور دوسری شکل میں۔

"
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کی ہدایات پر مشتمل ایک بیان جاری کیا ہے۔ ٹویٹ کے ذریعہ جاری اس بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں اور میڈیا تنظیموں کی ”شرعی ذمہ داری" ہے کہ وہ اس حکم نامے پر فوری طور پر عمل کریں۔

نئے فرمان کے مطابق عوام کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ طالبان حکومت کے اہلکاورں اور عہدیداروں کے خلاف غیر ضروری الزامات کا سلسلہ بند کریں۔

مذکورہ ہدایت کے مطابق ”اسلامی اقدار اور اسلامی شریعت کے مطابق، عہدیداروں کے بارے میں غیر ضروری الزامات اور غیر درست تنقید کی اجازت نہیں ہے۔ افواہوں کی اسلام میں گنجائش نہیں کیونکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلتی ہے اور اس سے اعتماد کی نفی ہوتی ہے اور حوصلے متاثر ہوتے ہیں۔"

حکم نامے میں یہ واضح نہیں ہے کہ کس طرح کی تنقید ”غیر درست" ہے۔

تاہم سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن مباحثوں میں بعض افراد اور ماہرین طالبان حکومت کے اقدامات پر وقتاً فوقتاً نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کو ملازمت سے روکنے اور انسانی حقوق جیسے امور پر بالخصوص طالبان رہنماؤں پر نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔
انسانی حقوق کی بعض تنظیموں اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق طالبان نے ”ایسے متعدد افراد کو گرفتار اور قید کر لیا اور انہیں اذیتیں دیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر طالبان پر نکتہ چینی کی تھی۔

"
نئے احکامات کیا ہیں؟
ذ بیح اللہ مجاہد کے ٹویٹ کے مطابق طالبان کے سپریم لیڈر نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ایسے تمام اقدامات کو ”منفی پروپیگنڈہ" سمجھا جائے گا ”جن سے دشمنوں کولاشعوری طورپرمدد" ملتی ہے۔ تاہم اس میں دشمنوں یا کسی گروپ کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان کا قومی مزاحمتی محاذ (این آر ایف) طالبان حکومت سے اب بھی مقابلہ کر رہا ہے۔

اس گروپ نے طالبان پر شہریوں کو گرفتار کرنے اور انہیں قتل کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ تاہم طالبان نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
طالبان رہنما کی طرف سے جاری ہدایات میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی فوجی کو دھکے دیتا ہے یا اس کے کپڑے کھینچتا ہے، یا اسے کوئی بری بات کہتا ہے تو اسے قابل سزا حرکت سمجھا جائے گا۔

ہیبت اللہ اخوندزادہ نے میڈیا اور عوام سے نئی ہدایات پر عملدرآمد کی واضح ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسے ”اپنی شرعی ذمہ داری" سمجھیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے جاری کردہ ان نئی ہدایات کے بعد افغانستان میں اظہار رائے کی آزادی مزید مسدود ہوجائے گی۔




اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv