
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بتائیں کہاں لکھا ہے پارٹی سربراہ غیرمنتخب بھی ہوتو بات ماننا ہوگی،آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم ووٹ لینے والا وزیراعلیٰ ہے،حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے۔ اے آئی آروائی کے مطابق ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ دوماہ پہلے عدالت نے ایک فیصلہ دیا جو سب پر ماننا لازم ہے، نظرثانی درخواستیں زیرالتواء ہیں، یکم جولائی کا فیصلہ دونوں فریقین کی باہمی رضا مندی سے جاری کیا تھا، اس وقت حمزہ شہباز کا الیکشن غلط قرار دیا تھا، تلاش کرکے بتائیں کہ کہاں لکھا ہے پارٹی سربراہ غیرمنتخب بھی ہوتو بات ماننا ہوگی،آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم ووٹ لینے والا وزیراعلیٰ ہے،حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہئیں، آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے،ہم ریاست کے معاملات کو لمبا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، فل کورٹ ستمبر میں بن سکے گا کیا اس وقت تک تمام کام روک دیں؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کیس میں دیکھیں گے کہ پارلیمانی پارٹی کو پارٹی سربراہ چلاتا ہے؟اس کیس میں پارلیمانی پارٹی کی کوئی ہدایات نہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اختیار پر پارٹی سربراہ نے تجاوز کیا؟فل کورٹ پیچیدہ اور مشکل معاملات میں بنایا جاسکتا ہے، یہ معاملہ پیچیدہ نہیں ہے۔
اس بات کا کوئی ڈر نہیں کہ سچ بولنے پرہمارے بارے کوئی کیا کہتا ہے، آئین کے مطابق فیصلہ کرنا اورجمہوریت کو مضبوط کرنا ہے، سوال اتنا ہے کہ اگرڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کو غلط سمجھا ہے تو درست کریں۔ اسی طرح جیو نیوز کے مطابق چودھری شجاعت اور پیپلزپارٹی کے وکیل میرٹ پر دلائل دیں گے، چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی موجودہ بنچ ہی سماعت کرے گا۔
اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکمران اتحاد کی فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا مسترد کردی ہے، حکمران اتحاد نے عدالت سے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی کی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے معاملے کا جائزہ لیا، چودھری شجاعت اور پیپلزپارٹی کی فریق بننے کی درخواست منظور کرلی ہے، فاروق ایچ نائیک کو بھی سنیں گے، وکلاء میرٹ پر دلائل دینا شروع کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ہم سب کو سنیں گے، اس کے بعد دیکھیں گے، فل کورٹ کے معاملے پر ہم آپ کو مزید سننا چاہتے ہیں، فل کورٹ کے حوالے سے ہم نے سب کے دلائل سننے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت 24 گھنٹے کیس سننے کو تیار ہے، میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ فل کورٹ بنے گا یا نہیں، نظرثانی کی درخواست سماعت کیلئے رکھتے ہیں تو آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہم نے وزیراعظم کو پانچ رکنی بنچ کے ساتھ گھر بھی بھیجا ہے، تب آپ نے مٹھائیاں بانٹیں آج آپ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اگر معاملہ حد سے تجاوز ہوا تو فل کورٹ بنادیں گے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا، تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی آج دوبارہ سماعت کی ، جہاں سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کے رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
، اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے سماعت مکمل ہوگئی ، اب مشاورت کی جائے گی کہ کیس فل کورٹ سنے گی یا موجودہ بنچ ہی اس کیس کی سماعت جاری رکھے، اس حوالے سے فیصلہ ساڑھے 5 بجے سنایا جائے گا۔ قبل ازیں سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کے معاملے پر وکلا کے دلائل ہوگئے، درخواست گزار پرویز الہی کے وکیل علی ظفر نے دوران سماعت دلائل دیے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی مفصل سماعتوں پر رائے دی چکی ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمارٹی پارٹی کی ہدایات پر ڈیکلریشن دینی ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے اور اسکی عدالتی تشریح بالکل واضح اور غیر مبہم ہے، عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ ہم آپ کو کیس کے میرٹ پر نہیں سن رہے، آپ یہ بتائیں کہ ہمیں فل کورٹ بنانا چاہیے یا نہیں؟ وکیل علی ظفر نے بتایا کہ فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے لیکن گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ 3 یا 4 کیسز میں بنا ہے، گزشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات پر مسترد ہوئی۔ وکیل نے نشاندہی کی کہ فل کورٹ کے باعث عدالت کو دوسرا کام روکنا پڑتا ہے، کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا جب کہ مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التوا کیسز کم ہو رہے ہیں۔
Comments