Social

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملک بھر کے صحافیوں کو ہراساں سے روک دیا ،جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملک بھر میں صحافیوں کو محض بات کرنے پر ہراساں سے روک دیا۔ عدالت نے سیکرٹری اطلاعات کو تنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ کوآرڈینیشن کرے، اب ہمارے پاس صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کوئی پٹیشن لے کر نہ آئے، کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کی ۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ حکومتیں بات کرنے سے کیوں گھبراتی ہیں کیا بات کرنے سے اس لیے روکا جاتا ہے کیونکہ احتساب ہوتا ہی حکومت کے آنے سے پہلے ایک صحافیوں کا سیٹ ٹارگٹ تھا اب دوسرا سیٹ ٹارگٹ ہوگیاصحافیوں کے لیے ہر وقت خوف اور دہشت کا ماحول کیوں ہے ،گزشتہ چند سالوں سے لگتا ہے سب سے بڑا جرم بولنا ہے عدالت نے سیکرٹری اطلاعات کو ہدایات کی کہ یقینی بنائیں کہ صحافیوں کی کوئی پٹیشن اب اس عدالت میں نہ آئے یو این رپیڈ وار سے پچھلی حکومت کی طرح ایک اور خط نہ آنے دیں اس موقع پر عدالت نے حکومت کو آزادی اظہار رائے کو تحفظ دینے کی ہدایت کی عدالت سمجھنے سے قاصر ہے کہ صحافیوں کیلئے خوف کا ماحول کیوں بنایا جا رہا ہیخوف کا یہ ماحول کیسے ختم ہو گا اس حکومت کے آنے سے پہلے صحافیوں کا ایک گروپ ریلیف لینے اس عدالت آیا اس حکومت کے آنے کے بعد دیگر صحافیوں کو اس عدالت سے ریلیف لینا پڑ رہا ہے اس صورتحال سے لگتا ہے کہ کچھ خوفناک حد تک غلط ہو رہا ہے صحافیوں کا یہ خوف وفاقی حکومت نے دور کرنا ہے یہ بہت اہم مسئلہ ہے جتنی معلومات ہونگی لوگ اتنے باشعور ہونگے اور احتساب بہتر ہو سکے گا مہذب دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ صحافیوں کی پکڑ دھکڑ کی جائے ،کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو وہ الگ بات ہے لیکن صحافت پر ایسی کاروائیاں نہیں ہونی چاہئیں ایک صحافی کے خلاف پورے پاکستان میں پچاس مقدمے بنا دیے جاتے ہیں عوام تک یہ معلومات جانے دیں کہ انکے حقوق کے ساتھ ریاست کیا کر رہی ہے ،پکڑ دھکڑ اور تھانیداری سے کچھ نہیں ہو سکتا آج کے زمانے میں زبان بندی نہیں کی جا سکتی حکومتیں آزاری اظہار سے کیوں گھبراتی ہیں اس سے تو احتساب ہوتا ہے مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے اٹھایا گیا ریکارڈ پر موجود ہے ریاست مطیع اللہ جان کیس کی انکوائری کرنے میں بھی ناکام رہی صحافیوں کو بھی خود احتسابی کی ضرورت ہے،آپ بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہیں صحافت تو کہیں درمیان میں رہ ہی گئی اس عدالت کے سامنے ایسی کوئی اس طرح کی درخواست نہ آئے ،درست سپیچ ہو یا غلط، اب اس کو بند نہیں کیا جا سکتایو این سے اس طرح کا خط آنا ہمارے لئے باعثِ شرمندگی ہے اپنے اقدام سے اٴْن کو بھی بتائیں کہ یہاں ایک حکومت ہے جو آزادیِ اظہار کو یقینی بناتی ہے۔

اس موقع پر صدر اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن ثاقب بشیر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ہم آئین اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں پچھلی حکومت میں بھی اب اس حکومت میں تنقیدی ٹویٹس پر سوال اٹھایا جارہا ہیابھی حال ہی میں ہمارے ایک دوست کی ٹویٹ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کے اعتراضات سیکریٹری اطلاعات دور کریں گی صدر پی ایف یو جے افضل بٹ،سیکریٹری جنرل ارشاد انصاری،فنانس سیکرٹری لالہ اسد پٹھان بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اس موقع پر صدر پی ایف یو جے نے عدالت کو بتایا کہ ہم قانون اور آئین کے پابند ہیں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں سیکریٹری اطلاعات سے تو ملاقات ہوئی ہے لیکن سیکریٹری داخلہ سے نہیں ہو سکی جس پر عدالت نے کہا کہ سیکرٹری اطلاعات بھی حکومت ہیں یہ آپ کے خدشات دور کریں گے اس موقع پر عدالت نے ہدایات دی کہ سیکرٹری صاحبہ اب امید ہے ہمارے سامنے صحافیوں کی کوئی پٹیشن نہیں آئے گی عدالت نے سیکرٹری اطلاعات کو 30 ستمبر تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv