Social

8 اکتوبر کی تاریخ میں کیا جادو ہے؟ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں؟ چیف جسٹس عمرعطا بندیال وکیل الیکشن کمیشن سے سوال

اسلام آباد (نیوزڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابات ملتوی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں کہ 8 اکتوبر کی تاریخ میں کیا جادو ہے؟ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں؟ الیکشن کمیشن استدعا کررہا ہے عدالت 8 اکتوبر پر مہر لگا دے، آپ کو کس کی گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو سب ٹھیک ہوجائے گا؟ آپ نے کہا سرکار کہہ رہی ہے 6 ماہ کا وقت چاہیے ، حکومت سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا یہ وقت کم ہو سکتا ہے؟ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلنے رہنے دینا ہے، سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگئے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی، صاف و شفاف الیکشن کی ضرورت ہے کیوں کہ جمہوریت کے بغیر جمہوری حکومت نہیں آسکتی، الیکشن کمیشن ایک بھرپور پلان کے ساتھ کل پیش ہو، انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ سماعت کررہاہے، دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے انتظامی مسائل کو اندرونی معاملہ کہا تھا، میں اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں، انتخابات کیس پر ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ چار تین سے ہے، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے ازخود نوٹس کو مسترد کیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ صدر نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیسے کر دیا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے کیسے مشاورت کی، سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کے مطابق انتخابات کا حکم نہیں دیا گیا ، سریم کورٹ کا آرڈر آف دا کورٹ چار ججز کا فیصلہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دوران سماعت کہا کہ میری آج پہلی پیشی ہے، ایک پروسیجر ہے، عدالت کو جلدی کیا ہے؟ عدالت کی مرضی ہے، جو آپ کرنا چاہیں، عدالت جس وکیل کو لینا چاہتی ہے لے لے میں روسٹرم چھوڑتا ہوں، جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے بطور وکیل الیکشن کمیشن سننا چاہتی ہے یا نہیں؟ بینچ کہہ دے کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جاؤں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دستاویزات نہیں تو آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ دوسرے وکیل کو سپر سیڈ کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے کل حامد علی شاہ اور سجیل سواتی آئے تھے، جس کے ساتھ ہی عرفان قادر کمرۂ عدالت سے چلے گئے اور الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آ گئے، انہوں نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدر مملکت نے تیس اپریل کی تاریخ دی، کمیشن نے تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردی، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں، عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلے کے پیراگراف 14 اور ابتداء کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا، ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس مین کہا کہ الیکشن کمیشن نے قانونی رائے لیے بغیر تین ججوں کے اکثریتی فیصلے پر عمل کیا اگر جمال خان مندوخیل ریمارکس نہ دیتے تو میں یہ بات نہ کرتا، کیا اقلیت خود ساختہ طور پر یہ دعوی کر سکتی ہے کہ وہ اکثریت میں ہے؟ پانچ جج عدالت میں بیٹھے سن کر فیصلہ کریں اور دو کہیں کہ ہمارا فیصلہ اکثریتی فیصلہ ہے، ہمارے چیمبرز میں جو کچھ ہوا یہاں وہ زیربحث نہیں آنا چاہیے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا، قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے۔
جس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ میں نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب الیکشن کمیشن دے، ہمارے تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ابھی مجھے اس پر نئی ہدایات نہیں ملی ہیں، ہمیں لگا سپریم کورٹ کا یکم مارچ کا تین دو کا فیصلہ درست تھا، ہم نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے بعد مشاورت شروع کی۔
سجیل سواتی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کی تاریخیں تجویز کیں، 3 مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا، الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، 22 مارچ کا آرڈر کب جاری کیا؟ اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ آرڈر 22 مارچ شام کو جاری کیا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذات نامزدگیاں موصول ہو چکی تھیں، آرڈر جاری ہونے تک شیڈول کے چند مراحل مکمل ہو چکے تھے لیکن فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کردیا، آئین کا آرٹیکل 17 پرامن انتخابات کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہوں، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کے لیے خط لکھے کیوں کہ بھکر میانوالی میں دہشتگردی کا خطرہ تھا، الیکشن کے لیے 4 لاکھ 12 ہزار کی نفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دہے کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے؟ دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی؟۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ جس دن سپریم کورٹ نے انتخابات کا حکم دیا اس دن بھی تھا کیونکہ سپریم کورٹ یہ طے کر رہی تھی کہ تاریخ کس نے دینی ہے اس لیے معاملہ سپریم کورٹ میں پہلے نہیں آیا، فروری سے اپریل تک سیکورٹی فراہمی سے معذرت کی گئی، سیکورٹی فورسز مردم شُماری میں بھی مصروف ہیں، وزارت خزانہ نے الیکشن کے لیے 20 ارب روپے دینا ناممکن قرار دیا، پنجاب کے لیے 52 ہزار اور کے پی کے لیے 15 ہزار اہلکار حساس پولنگ سٹیشن کے لیے درکار تھے۔
جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ اپنی آئینی زمہ داری سے بھاگ رہے ہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اپنی آئینی زمہ داری سے نہیں بھاگ رہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا اور اداروں کے عدم تعاون پر پورا شیڈول منسوخ کر دیا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے کہ آپ نے 90 روز میں انتخابات کرانے ہیں اگر کوئی تعاون نہیں کررہا تو آپ عدالت آتے نہ کہ پورا پراسس ہی منسوخ کردیا، کیا آپ اپنی آئینی زمہ داری ادا کرنے میں ناکام نہیں رہے؟ آپ نے صرف رپورٹس پر چھ ماہ بعد کی تاریخ دے دی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر اور صدر تاریخ دے دیں تو آپ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں آپ شیڈول اور تاریخ کو مکس نہ کریں تاریخ تبدیل نہیں ہوسکتی، آپ کو کس کی گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں سال 2023 میں انتخابات ہونے تھے بجٹ نہیں رکھا؟ پورے ملک میں انتخابات ہوں تو کتنے پیسے درکار ہوں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں انتخابات ہوں تو 47 ارب روپے خرچ ہوں گے اگر الگ الگ انتخابات ہوں گے تو 61 ارب خرچ ہوں گے، پنجاب اور کے پی میں جلد انتخابات سے 20 ارب اضافی خرچ ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بہت خدشات ہیں، صدر کو کے پی میں دہشت گردی کی یہ حقائق نہیں بتائے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آپ نے بہت غلط کیا کہ اتنی حساس معلومات صدر کو نہیں بتائی، صدر نے آپ کے مشورے سے تاریخ دی۔


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv