
اسلام آباد (نیوزڈیسک) چیف جسٹس پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس میں ریمارکس دئیے ہیں کہ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کر دیا ہے،سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی،عدالت نے سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب طلب کر لیا جبکہ ایکٹ پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا گیا۔
سپریم کورٹ نے قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی کیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ قانون سازی کے اختیارات سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں،وفاقی قانون سازی لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں،یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی ہے کہ آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جز ہے۔
گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا،جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے،آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں۔
چیف جسٹس نے قرار دیا کہ دیکھنا ہے عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے،عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے،پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے،یہ قانون ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں ہے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ کسی جج کے خلاف ریفرنس یا شکایت درج کرا کر اسے کام سے نہیں روکا جا سکتی،بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، جبکہ 7 سنیئر ججز یا فل کورٹ بنانے کا اختیار بھی چیف جسٹس کا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دئیے کہ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کر دیا ہے،سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔ عدالت نے پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کر دی۔
Comments