
اسلام آباد(نیوزڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ایک گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت شروع ہو گئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ درخواست پر سماعت کر رہاہے۔
دورانِ سماعت عمران خان کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کروانے کے لیے ہائیکورٹ آئے، وہ بائیو میٹرک کروا رہے تھے کہ رینجرز نے ہلہ بول دیا، دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے، ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا، دوسرا دائر ہو رہا تھا، کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے، کیا مناسب نہ ہوتا نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی استفسار کیا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کتنے لوگ آئے تھے جس پر وکیل نے بتایا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے 80 سے 100 افراد عدالت میں داخل ہوئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، 90 افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ کسی فرد نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینا چاہیے تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ ہم اس وقت صرف عدالت کی عزت اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ نیب ایسے کئی سالوں سے کر رہا ہے، نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا، یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزہد ریمارکس دئیے کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے، نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ پارکنگ سے گرفتار کیا تھا، عدالت نے گرفتاری واپس کرا کر نیب کے خلاف کاروائی کی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ائندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عمران خان کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا گیا؟عمران خان کو ان کے گھر یا راستے میں کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟۔گرفتاری سے قبل کتنے نوٹسز بھیجے گئے؟ ۔نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس بھیجا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب کا کوئی افسر گرفتاری کے وقت موجود تھا، یکم کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 کو گرفتاری ہوئی، 8دن تک نیب نے خود کیوں کوشش نہیں کی،کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتا تھا،نیب نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا،نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان کو گرفتار کرنا ناممکن ہوگیا تھا،جب بھی گرفتاری کی کوشش کی جاتی عمران خان لوگ اکٹھے کرلیتے۔عمران خان جس کمرے میں تھے اس کمرے کی کنڈی لگا دی گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر کمرہ بند ہو تو کنڈی کھٹکائی جاتی ہے نہ کے دروازہ توڑا جائے۔درخواست گزار عدالتی سسٹم میں داخل ہوا ، اس نے اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہم اس کیس میں پولیس کو نہیں رجسٹرار کو بلالیں گے، بظاہر لگتا ہے کہ گرفتاری کے لئے اجازت نہیں لی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ موجودہ حکومت سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ معاملہ ٹھیک کرنے کیلئے سب ریورس کرنا ہوگا،اسلام آباد ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دینے کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا،پاکستان کا بہت نقصان ہوچکا، یہ سلسلہ رک جانا چاہیے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عمران خان کو 4:30 بجے پیش کریں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ احتساب عدالت ریمانڈ دے چکی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بنیاد غیرقانونی ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔وقت آگیا ہے کہ مستقبل کیلئے مثال قائم کی جائے۔ آئی جی اسلام آباد عمران خان کو پیش کریں،کوئی سیاسی رہنما اور کارکن عدالت نہیں آئے گا۔
Comments