Social

آرمی کے اندر اس فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے سپریم کورٹ کے ریمارکس

اسلام آباد (نیوزڈیسک) سپریم کورٹ میں سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دئیے کہ ملزمان کو فوجی عدالتوں کے حوالے کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا، آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہو گا ان کو اپیل کا حق ملے گا، جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ ہویا آفیشل سیکریٹ ایکٹ فوجی عدالتوں میں ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینزنے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں توآفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، نو مئی مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اورآرمی ایکٹ سےمتعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ کےدلائل کی بنیاد یہ ہے کس کے پاس اختیارہے کہ وہ سویلینز کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے۔ فیصل صدیقی کی جانب سے لیاقت حسین ، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ سٹیٹ سیکورٹی کے حدود میں جائینگے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر موجود ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے؟۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو۔
آپ صرف مفروضہ پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کیخلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کیخلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاوں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھیجا جا سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ سے دو سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں،آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہو گا، آرمی کے اندر اس فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقت عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دئیے آپ ابھی تک بنیادی پوائٹ ہی نہیں بنا سکے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں، اگر ایف آئی آر میں افیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ریمانڈ آرڈرز پر ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی،فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی۔سپریم کورٹ میں درخواست پر سماعت ابھی بھی جاری ہے۔


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv