
اسلام آباد (نیوزڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے 2017 کے دھرنے سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور تحریک انصاف نے اپنی اپنی درخواست واپس لے لیں جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل ہوتا تو سنگین واقعات نہ ہوتے،پہلے کہا گیا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، کیا اب غلطیاں ختم ہوگئیں نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں ،یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں، فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لیے کیس اس بینچ کے سامنے نہیں لگا،عدالتی وقت ضائع کیا گیا، ملک کو پریشان کیے رکھا، اب سب کہہ رہے ہیں درخواستیں واپس لینی ہیں،کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہی ،جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا،سچ بولنے سے اتنا ڈر کیوں، لکھیں کہ نظرثانی درخواست کا حکم کہاں سے آیا،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، ایک آئینی ادارہ اتنا ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہی ، مٹی پائو کہنا ٹھیک نہیں ہوتا ، نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت، حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو،ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے، ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں ، سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں،تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی، فیصلہ تسلیم کیا، مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے۔
جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ،یہ ریگولر بینچ ہے، خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لیے کیس اس بینچ کے سامنے نہیں لگا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہم نظر ثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے ہیں، کوئی وجہ ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ نظر ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی، اٹارنی جنرل نے کہا میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔
وکیل پیمراحافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ کس کی ہدایات پر درخواست واپس لے رہے ہیں، یوٹیوب چینلز پر تبصرے کئے جاتے ہیں۔دوران سماعت پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کردی۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہی اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں، ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں، کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔
شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا کور دلائل دینے ہیں، اسے آئندہ سماعت پر دے دینا۔درخواست گزار اعجاز الحق کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو صرف آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کہا تھا کچھ سیاستدانوں نے غیر ذمہ دارانہ بیان دئیے، ہم نے کسی کا نام نہیں لیا، آپ نے خود سے اخذ کر لیا آپ کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے اعجازالحق کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی، کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا مؤقف درست ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کیے رکھا، اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ملک صاحب آپ جیسے سینئر آدمی سے یہ توقع نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا تمام اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے، فیض آباد دھرنا لینڈ مارک فیصلہ ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں، کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے، یہاں سب خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، ایک آئینی ادارہ اتنا ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لکھیں ناں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کریں، یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا، اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پاؤ، نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں، 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے، کیا ہوا، اس پر بھی مٹی پاؤ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت، حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نظرثانی واپس لے رہی ہے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ہی کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرثانی دائرکی آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہورہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے، نعوذ باللہ اوپرسے حکم اللہ کا نہیں یہاں کسی اورکا ہوتا ہے، نبی کریم ؐنے بھی جھوٹ سے منع کیا ہے، جو ہوا اس کا اعتراف تو کرلیں، جزا سزا بعد میں ہوگی، اعتراف جرم تو کریں، مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا، آج الیکشن کمیشن آزاد ہوگیا ہے، ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا، پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا،کس کا ڈر ہی اوپر والے کا تو نہیں ہے آخر کس سے ڈرتے ہیں ٹی وی پر جاکر بھی تقریریں کریں گے تو عدالت کو ہی سچ بتادیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی سابق یا موجودہ نہیں ہوتا، یہ ادارہ ہے، ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے، ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں ، سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں، چند کے علاوہ باقی سب درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے ، چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی دلچسپ بات ہے جنھیں نظرثانی دائر کرنا چاہیے تھی، انھوں نے نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی، فیصلہ تسلیم کیا، مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، غلطیاں تسلیم کرنا بڑی بات ہے، پیمرا کو کہا گیا تھا کہ نظرثانی دائر کرنے یا بورڈ میٹنگ میں فیصلہ ہوا، پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل امام اللہ کنرانی کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہیں جو وکلا پیش نہیں ہوئے، آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کانظر ثانی دائر کرنے پر معافی نامہ کدھر ہے، چیف جسٹس نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ کو اپنے وکیل پر اعتبار نہیں جو بول رہے ہیں جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے معذرت کر لی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم درخواست واپس لے رہے ہیں، یا تو آپ کہیں دھرنے والوں کے ساتھ معاہدے پر جس کے دستخط تھے ان کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں، یا تو بتائیں نا کہ ہم نے فیصلے کی فلاں فلاں باتوں پر عمل کر لیا، یا پھر ایسے ہی اگلی افرا تفری تک رہنے دینا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 12 مئی کو پاکستانی سیاست میں نئی چیز کنٹینرز متعارف ہوئی، ایم کیو ایم آج یہاں ہمارے سامنے آئی ہی نہیں، ایم کیو ایم کے ایک وزیر تھے آج ان کی طرف سے کوئی نہیں آیا۔اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات ہر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ نے سورہ توبہ کی آیت 19 میں سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا کہا، آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔عدالت نے جمعرات کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی یہ درخواستیں نمٹا نہیں رہے، پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم فیصلے کو درست مانتے ہیں، نظرثانی نہیں چاہتے، علی ظفر صاحب کیا یہ درست ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ جی درست ہے، ہم فیصلے کو چیلنج نہیں کر رہے، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جو وکلا پیش نہیں ہوئے، آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر تے ہوئے عدالت نے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلا سے تحریری جواب طلب کر لیے۔عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ سب فریقین موجود نہیں تھے، فریقین کو حاضری کا ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین نے کہا فیصلہ پر عملدرآمد کو ریکارڈ پر لائیں گے۔حکمنامے میں کہا گیا کہ کچھ فریقین نے کہا عدالت نے فیصلے سے پہلے ان کو سنا نہیں، ایسے بیانات سرپرائزنگ تھے کیونکہ سماعت اوپن کورٹ میں تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کتنا وقت دیں ،اٹارنی جنرل نے دو ماہ کا وقت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ براہراست کارروائی نشر کرنے والے معاملہ پر کمیٹی بنائی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلی سماعت کو انڈیا پاکستان میچ سے زیادہ دیکھا گیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تو ریونیو میں ہمارا حصہ کہاں گیا۔یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر کی نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی تھیں۔
گزشتہ روز پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور اس سے ایک روز قبل انٹیلی جنس بیورو نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں تھیں جبکہ درخواست دینے والے ایک اور فریق شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی۔
Comments