
اسلام آباد(نیوزڈیسک) سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت جاری ہے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، جسے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں.
گزشتہ روز 9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آکر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تو اس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں اور دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر پارلیمنٹ کے اچھے کام رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے 3 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا تھا کہ اس ایکٹ سے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کیسے کم ہوئے؟.
قبل ازیں 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کر رہا ہوں ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی تھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آخر میں حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود اور جج اعجازالاحسن سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ ہم اپنے طور پر کر رہے ہیں.
چیف جسٹس نے فریقین سے کہا تھا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیں اور سماعت کی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کردی تھی جس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اتفاق کیا تھا حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے دائر کی گئیں درخواست فل کورٹ کی تشکیل کی بنیاد پر نمٹا دی گئی ہیں.
واضح رہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا نجی ٹی وی کی رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ، ایکٹ معطلی کے فیصلے کو منسوخ کر سکتا ہے قانون کو معطل کرتے ہوئے رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی.
درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، اس کی تیاری، اس کی توثیق اور اس کو منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو عدالت عظمیٰ کے آئین کے تحت کام یا چیف جسٹس سمیت اس کے دیگر ججز کے اختیارات میں مداخلت کا باعث ہو یا جس کے ذریعے اس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے.
Comments