
اسلام آباد (نیوزڈیسک) سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن میں چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے ملک کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اپنی پارٹی کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چارٹر طیارے سے تقریباً 164 افراد پاکستان پہنچے ہیں جن میں پارٹی رہنما اور صحافی شامل ہیں۔
اسلام آباد میں مختصر قیام کے دوران وہ قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد لاہور کیلئے روانہ ہوں گے۔دبئی سے پاکستان روانگی سے قبل دبئی ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے اعزاز کے ساتھ واپس آرہا ہوں۔سابق وزیر اعظم نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ان کی پارٹی آئندہ انتخابات میں جیتنے کی صورت میں عوام کے خدشات دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
عام انتخابات کے بارے میں سوال پر نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو پاکستان کے جوہری تجربات کرنے میں اپنے کردار پر روشنی ڈالی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حمایت کا اظہار کیا۔جنوری میں انتخابات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میری ترجیح الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بھروسہ کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے حوالے سے بہترین فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت ملک میں ’’منصفانہ‘‘ الیکشن کمیشن کام کر رہا ہے۔نواز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ ہم 28 مئی 1998 کو جوہری تجربات کرنے والے ہیں اور 9 مئی 2023 کو ہونے والے فوجی تنصیبات پر حملوں کے ماسٹر مائنڈ نہیں ہیں ۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ہماری سیاسی جماعت پاکستان کے موجودہ بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے پاس قوم کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت ہے۔نواز شریف چند روز ریاض اور دبئی میں گزارنے کے بعد ہفتہ کی سہ پہر اسلام آباد پہنچے۔ جہاں سے وہ لاہور جائیں گے جہاں ان کے حامیوں کی جانب سے استقبالیہ ریلی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔مزید برآں نواز شریف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک ترقی کی بجائے پستی کی طرف جا رہا ہے۔
انہوں نے اس پاکستان کے بارے میں سوالات اٹھائے جہاں ضروری ادویات مفت دستیاب تھیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 2017 کے مقابلہ میں قوم کی حالت بہتر نہ ہو سکی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس دوران لوگ روزگار حاصل کر رہے تھے اور مفت طبی علاج حاصل کر رہے تھے۔نواز شریف نے سوال اٹھایا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ چیلنجز کے باوجود پاکستان ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے اور میری بیٹی مریم نے تقریباً 150 عدالتی سماعتوں کا سامنا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کتنی بدقسمتی ہے کہ عوامی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود بھی مریم نواز مجرم قرار دی گئیں اور قید کی گئیں۔
Comments