
اسلام آباد (نیوزڈیسک) ملک بھر کے علماء و مشائخ اور دینی مدارس نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے پیغام پاکستان کی دستاویزات پر مکمل عمل درآمد پر زور دیا ہے ا ور دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی ہے خود کش حملوں کو حرام اور دہشت گردوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔
پیغام پاکستان پر 1800 عالم دین نے دستخط کیے،علماء مشائخ نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دہشتگردوں نے ایک بار پھر اسلام کے نام پاکستان پر وار کرنا شروع کردیا لیکن عالم دین نے اسلام کو ہتھیار بنانے والوں کو بدترین گناہ گار قرار دیا،انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی اسلامی اقدار کو فروغ دینے اور دہشتگردی کی روک تھام کے پیش نظر اہم پیش رفت ہے،ملک میں پیغام پاکستان کی روشنی میں اتحاد، رواداری اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ ضابطہ اخلاق پیش کر دیے گئے، ’’پیغامِ پاکستان‘‘ قرآن پاک کے احکامات، سنت رسولؐ اور پاکستان کے آئین کے مطابق متفقہ دستاویز ہے جو کہ 16 جنوری 2018 کو منظور ہوا،یہ دستاویز پاکستان کے ریاستی اداروں، یونیورسٹیز اور درج ذیل مکاتب فکر کے تعاون سے تیار کی گئی ہے،علماء کرام کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بنیادی حقوق یعنی سماجی و اقتصادی انصاف، قانون کی نظر میں مساوی، سیاسی انصاف، آزادی اظہار، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی ضمانت دیتا ہے،حکومت، فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کو غیر مسلم قرار دینا اور ان کے خلاف کاروائی کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی، بغاوت کے مترادف، اور اسلامی احکام و شریعت کے مطابق ’’حرام‘‘ ہے،تمام علمائ کرام مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم افواج پاکستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کا اعلان کرتی ہے،علمائے کرام نے خود کش بمباری کو شریعت کی روشنی میں "حرام" قرار دیا اور ریاستی اداروں پر زور دیا کہ وہ ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کریں،تمام تعلیمی اداروں کا مشن طلباء کی تعلیم و تربیت ہے اور اگر کوئی ادارہ عسکریت پسندی، نفرت، انتہا پسندی اور تشدد میں ملوث پایا گیا تو ریاست کو کارروائی کرنی چاہیے،ہر مسالک اور مکتبہ فکر کو تبلیغ کی آزادی حاصل ہے تاہم کسی فرد، مسالک یا ادارے کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی ممانعت ہے،کوئی عالم دین کسی شخص کو غیر مومن قرار نہیں دے گا کیونکہ یہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے،پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کے فروغ، تربیتی سرگرمیوں اور دنیا کے دیگر ممالک میں کسی مذموم کارروائی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی،انسانی اقدار اور اسلامی اخوت پر مبنی اسلامی اداروں کا قیام وقت کی ضرورت ہے ،اقلیتی برادریوں کو بھی مسلمانوں کی طرح حقوق حاصل ہیں اور انہیں اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق عبادت کی آزادی حاصل ہے،لاؤڈ اسپیکر، ٹی وی چینلز وغیرہ کے استعمال کے ذریعے نفرت انگیز تقاریر کی حوصلہ شکنی اور قانونی طور پر ان کی ممانعت پر زور دیان،تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے متفقہ رائے کے مطابق دہشتگردوں کو دین اسلام سے خارج قرار دیا۔
Comments