
اسلام آباد (نیوزڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیصل آباد الیکڑک سپلائی کمپنی کے ملازم کی درخواست پر سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب ملازم نے پنجابی زبان میں دلائل دینا شروع کردیئے۔ تفصیلات کے مطابق درخواست گزار عبدالرشید نے عدالت میں خود کیس لڑنے کی استداء کی، جس پر عدالت نے درخواست گزار کو دلائل دینے کی اجازت دی تو فیصل آباد الیکڑک سپلائی کمپنی کے ملازم نے پنجابی زبان میں دلائل کا آغاز کردیا، پنجابی میں دلائل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’الیکٹرک سپلائی کمپنی میں آپ کا عہدہ کیا ہے‘ درخوست گزار نے جواب دیا کہ ’میں بل ڈسٹری بیوٹر ہوں‘ چیف جسٹس نے پوچھا ’آپ کو کس نے نوکری دی، کس کی سفارش پہ نوکری ملی‘ ملازم نے بتایا کہ ’1990ء میں انٹرویو دیا اور بھرتی ہوگیا‘، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ کا انٹرویو بھی پنجابی میں ہوا تھا‘ درخواست گزار نے بتایا ’جی پنجابی میں انٹرویو ہوا تھا‘۔
بتایا گیا ہے کہ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’بل ڈسٹری بیوٹر کو اردو اور انگریزی پڑھنا سمجھنا تو آنا چاہیئے، آپ کام کیسے کرتے ہیں، بل پنجابی میں ہوتا ہے کیا، آپ کو محکمہ نے بحال تو کر دیا اب آپ عدالت سے کیا چاہتے ہیں آپ تو اس نوکری کیلئے موزوں ہی نہیں لیکن پھر بھی محکمہ نے آپ کو بحال کر دیا۔ دوران سماعت جب جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ انگریزی یا اردو لکھ سکتے ہیں‘ اس پر درخوست گزار نے کہا ’کچھ لکھ سکتا ہوں‘، بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصل آباد الیکڑک سپلائی کمپنی کے ملازم کی درخواست نمٹاتے ہوئے خارج کردی اور قرار دیا کہ درخواست گزار عبدالرشید کو محمکہ نے بحال کر دیا اور درخواست گزار نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا-
Comments