اسلام آباد(نیوزڈیسک) پولیس نے لال مسجد کے سابق خطیب کی اہلیہ سمیت 40 طالبات اور دیگر افراد کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11- ایکس کے ساتھ پی پی سی کی دفعہ 148، 149، 353، 186، 341، 440، 188، 506 (ii) اور 427 کے تحت لوہی بھیر تھانے میں درج کیا گیا ہے.
پولیس نے بتایا کہ جامعہ حفصہ کی طالبات ام حسن کی قیادت میں مسلح افراد کے ساتھ بحریہ ٹاﺅن فیز 4 پہنچیں اور چورنگی سے سڑک بلاک کر دی پولیس نے کہا کہ وہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے احتجاجی گروپ نے الزام لگایا کہ دارالحکومت کی پولیس اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے آس پاس کے علاقوں میں غیر اخلاقی سرگرمیاں ہو رہی ہیں.
انہوں نے تجارتی مراکز اور دکانوں کو زبردستی بند کرواتے ہوئے تاجروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں اطلاع ملنے پر پولیس جائے وقوع پر پہنچی اور مظاہرین کو سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے نفاذ کے بارے میں مطلع کیا جس کے تحت احتجاج سمیت ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے اس کے باوجود طالبات اور ان کے ساتھ آنے والے افراد نے مزاحمت کی اور پولیس پر لاٹھیوں سے حملہ کیا، ان کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور سرکاری گاڑی کو بھی نقصان پہنچایا پولیس نے کہا کہ انہوں نے ڈنڈے لہرائے اور وہاں واقع کاروباری مراکز کو زبردستی بند کروا دیا.
اس سے قبل ام حسن نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ بحریہ ٹاﺅن میں 2008 یا 2009 سے کام کرنے والا دینی مدرسہ جامعہ حفصہ فحاشی اور عریانی میں گھرا ہوا ہے اور مقامی حکام پر آنکھیں بند کرنے کا الزام لگایا انہوں نے کہا کہ غروب آفتاب کے بعد خاندان یہاں نہیں آسکتے، انتظامیہ بے بس ہے کیونکہ پولیس نے کارروائی کرنے میں مدد نہیں کی انہوں نے الزام لگایا کہ وہ پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسران کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں. ام حسن نے وزیر داخلہ، آئی جی پی، ڈی آئی جی اور ڈی سی سے کہا کہ وہ ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیں، بصورت دیگر وہ کارروائی کریں گی انہوں نے کہا کہ جب میری بیٹیوں کی بات آئے گی تو میں اسے برداشت نہیں کروں گی.
Comments