Social

معصوم شہریوں کو کیوں نشانہ بناتے ہو ، ہمت ہے تو آؤ! ہم سے مقابلہ کرو۔ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی (نیوزڈیسک) ترجمان پاک فوج لیفیٹینٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ معصوم شہریوں کو کیوں نشانہ بناتے ہو ، ہمت ہے تو آؤ! ہم سے مقابلہ کرو،بلوچستان میں دہشتگردی کرنے والوں کا اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں،بلوچستان سے متعلق بیانیہ کے پیچھے بیرونی حکمت عملی ہے ، تاکہ اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوں اور احساس محرومی کا بیانیہ مزید چلایا جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آرنے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردی کرنے یا کرانے والوں کا اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ بلوچستان میں دہشتگردوں سے نمٹیں گے، دہشتگردوں کو حساب دینا ہوگا، بلوچستان میں بیرونی فنڈنگ سے احساس محرومی کا بیانیہ بنایا جاتا ہے، بلوچستان پاکستان کی جان، ہماری شان اور آن ہے۔

بلوچستان سے متعلق بیانیہ کے پیچھے بیرونی حکمت عملی ہے ، تاکہ بلوچستان کے اندر اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوں، احساس محرومی کا بیانیہ مزید چلایا جائے، معصوم شہریوں کو بسوں سے اتار کر بربریت کا نشانہ بنانا سافٹ ٹارگٹ ہے، معصوم شہریوں کو کیوں نشانہ بناتے ہو ، ہمت ہے تو آؤ! ہم سے مقابلہ کرو۔

نیوزایجنسی کے مطابق پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے سب سے پہلے فتنہ الخوارج اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف اس سال32 ہزار 173 آپریشنز کیے۔ان آپریشنز کے دوران 90 خوارج کو واصل جہنم کیا گیا، دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد آپریشن کیے جا رہے ہیں۔
ان آپریشنز کے دوران 193 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، قوم شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، آخری خارجی اور دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 20 اگست سے وادی تیراہ میں فتنہ الخوارج، نام نہاد کالعدم تنظیم لشکر اسلام اور جماعت الحرار کے خلاف کامیاب آپریشن کیا گیا، کامیاب آپریشن کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کو بڑا دھچکا لگا، کارروائیوں کے دوران انتہائی مطلوب خارجی ابوذر المعروف صدام سمیت 37 خوارج کو جہنم واصل کیا گیا جب کہ 14 دہشت گرد زخمی ہوئے، اس دوران ہمارے 4 بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
25 اور 26 اگست کی رات دہشت گردوں نے بلوچستان میں کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں اندورن، بیرون ملک دہشت گردوں کی ایما پر کی گئیں، ان کا مقصد معصوم اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا ہے، فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 21 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، اس دوران 14 جوان شہید ہوئے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر بھی پایا جاتا ہے، جس کو بیرونی ایما پر مخصوص عناصر منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ اس کو اس لیے اسپلائٹ کرتے ہیں تاکہ بلوچستان میں ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا جاری عمل خوف ہ ہراس کے ذریعے متاثر کیا جا سکے۔
جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی، جب ترقی نہیں ہوگی تو اس سے احساس محرومی اور ریاستی در اندازی کا بیانیہ مزید بڑھے گا، دہشت گردوں کے سر پرست ریاست کو مزید مورد الزام ٹھرائیں گے اور گھناؤنے عمل کو جاری رکھ سکیں گے، 25، 26 اگست کی رات کو ہونے والے واقعات اسی بیرونی فنڈنگ پر چلنے والے کھیل کا حصہ تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ کرنے والوں، کرانے والوں کا انسانیت اور بلوچ اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہتے شہریوں کو ظلم کا نشانہ بنانا اور اس پر فخر ان کی ذہنیت اور مایوسی کی عکاسی ہے، دہشت گردوں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ شہریوں کے جان و مان اور ترقی کے دشمنوں سے ریاست آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے، اس کا خود احتسابی کا نظام انتہائی جامع اور مضبوط عمل جو ٹائم ٹیسٹڈ ہے، یہ الزامات کے بجائے، ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے، جب بھی فوج میں قائم قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ خود کار نظام حرکت میں آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 12 اگست کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے حوالے سے بتایا گیا تھا، ریٹائرڈ افسر کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں باضابطہ طورپر درخواست موصول ہوئی، اپریل 2024 میں پاک فوج کی طرف سے اعلیٰ سطح کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا، تاکہ مکمل تحقیقات کی جاسکے۔
ٹھوس شواہد پر مبنی تفصیلی انکوائی مکمل ہونے کے بعد 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ متعلقہ ریٹائرڈ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانب سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے، ان بنیادوں پر فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان آرمی قومی فوج ہے، اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، نہ یہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے، نہ طرفدار، فوج کا ہر حکومت کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق ہوتا ہے جو آئین اور قانون میں مناسب طور پر بیان کیا گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر فوج میں کوئی شخص اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کام کرتا ہے یا اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو پاک فوج کا خود احتسابی کا نظام حرکت میں آتا ہے، ثبوت اور شواہد کی روشنی میں ذمے داروں کو ان کے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑتا ہے، جاری عمل اس بات کی ایک اور دلیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج میں واضح اتفاق رائے ہے کہ فوج کو بحیثیت ریاستی ادارہ کسی بھی سیاسی مفاد کی تکمیل کے طور پر استعمال سے محفوظ رکھا جائے گا، متعلقہ افسران کو قانون کے تحت مرضی کا وکیل کرنے، اپیل سمیت دیگر حقوق حاصل ہوں گے، فیض حمید کیس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاک فوج ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے کی گئی خلاف ورزیوں کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے اور بلا تفریق قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بلا تفریق خود احتسابی باقی اداروں کو بھی ترغیب دیتی ہے کہ اگر ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے کوئی اپنے منصب کو استعمال کرتا ہے تو اس کو وہ بھی جوابدہ کریں گے، ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد ہی ان کا بہترین سرمایہ ہے۔انہوں نے کہا انسداد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ ایک منظور شدہ اور مربوط حکمت عملی کے تحت لڑی جارہی ہے مختلف سیاسی جماعتوں، سٹیک ہولڈرز اور تمام حکومتوں نے اس حکمت عملی کو مرتب کیا ہےیہ نیشنل ایکشن پلان اور ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان اور اب عزم استحکام کے نام سے ایک دستاویزی شکل میں بھی موجود ہے، اس کے اندر جو افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام ہیں وہ بھی ایک مربوط حکمت عملی کےتحت کیے جاتے ہیں، اس کے چار مراحل ہیں کلیئر، ہولڈ، بلڈ اور ٹرانسفر تو جو دہشتگردی بڑھ رہی ہے ہمیں سمجھنا ہوگا کیا ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مربوط حکمت عملی کے تحت جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج نے کام کرنا ہے کہ دہشگردوں سے علاقوں سے ختم کرنا اور ان کو عارضی طور پر ہولڈ کرنا تاکہ وہاں پر باقی عہدیداران ہیں، انتظامیہ ہے وہاں پر اس کے لیےسازگار ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ جس میں اکر وہ سماجی اور معاشی منصوبے لگائے اور پھر اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں لے۔
ڈ ی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس میں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج ہے اس نے دو دہائیوں سے زیادہ دہشتگردی کی جنگ لڑی ہے اس میں 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو دہشتگردوں سے کلیئر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عملاً ایسا علاقہ نہیں جہاں دہشتگردوں کی اجارہ داری ہو، تو جو کلیئر اور ہولڈ کے مراحل ہیں وہ تو مکمل ہو چکے ہیں، انٹیلی جنس بیسڈ چھوٹے بڑے تمام آپریشنز جو قانون نافذ کرنے والے اداروں جس میں پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز بھی شامل ہے یہ اسی کو مزید تقویت اور دوام دینے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
اب جو بلڈ اور ٹرانسفر کا کام ہے اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا یہ عزم ہے کہ اس کو مکمل ہونے کی ضرورت ہے اور اس میں جو ذمہ داری ہے وہ لوکل گورنمنٹ اور صوبائی حکومت کی ہے کیونکہ اس میں انہوں نے صحت کے تعلیم کے روزگار کے سماجی منصوبے لانے ہیں تاکہ عوام کو ایک روز مرہ کی زندگی میں مصروف کیا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج بڑھ چڑھ کر صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ کی اعانت کرتی ہے۔
ہ پاکستان فوج بڑھ چڑھ کر وفاقی، صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ کی اعانت کرتی ہے اور صحت کے تعلیم کے روزگار کے ترقی کے متعدد منصوبے خیبرپختونخوا، بلوچستان میں پاک فوج کے یونٹس اور فارمیشن ہیں وہ یہ کام کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2021 کے بعد سےفتنہ الخوارج اور دہشتگرد جو ہیں ان کی سہولت کاری بڑھ چکی ہے جب سے افغانستان میں تبدیلی آئی ہے، یہ سہولت کاری چاہے ٹریننگ کیمپس کی شکل میں ہو یا نقل و حمل کی مدد فراہمی کی صورت میں یا یہ افغان شہریوں کی خود فتنہ الخوارج میں شامل ہونے کی شکل میں ہو چاہے خود کش بمباروں، یا چھوڑا ہوئے امریکی اسلحے کی جدید فراہمی کی شکل میں ہو یہ بڑھ چکی ہے۔
اس سلسلے میں حکومت پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور پاکستان نے اس نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان پر خوارجین پر قطعاً فوقیت نہ دے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خوارجی جن کا نہ کوئی دین اسلام سے تعلق ہے اور نہ ان کا کوئی انسانیت سے تعلق سے ہے اور نہ ان کا کوئی قبائلی اقدار سے تعلق ہے۔
حکومت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سی چیزوں پر اچھے تعلقات ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دو برادر اسلامی ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کرکے رخنہ ڈال دیں ان کو ہم یہی کہیں گے وہ خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔فوج ہوتی ہے وہ دہشت گرد سے لڑتی ہے اور قوم دہشت گردی سے لڑتی ہے، اس لیے حکومت نے عزم استحکام کے نام سے ریوائز نیشنل ایکشن پلان کی نئی شکل تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر پیش کی اس کا مقصد دہشتگردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اقدامات ہیں وہ اٹھائیں جائیں جس میں ذمہ داری باقی اسٹیک ہولڈرز کی ہے۔
ان میں سے تین اہم جو اقدامات ہیں اس میں پاکستان کے فوجداری قانون کو مضبوط کیا جائے، دہشگروں کے اور جرائم پیشہ مافیاز کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے اور تیسرا پوری قوم یک زبان ہو کر دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک بیانیے پر کھڑی ہو۔اس میں باقی اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے ہم ان کی ہمیشہ کی طرح بھرپور اعانت اور معاونت کرتے رہیں گے۔ فیض حمید اور ان کے کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھنے کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے خدشات سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ایک زیر سماعت معاملہ ہے اور آپ کا سوال مفروضوں پر مبنی ہے لیکن میں آپ کو یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص، اگر کسی فرد یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہو، ان کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے اور اس کے ثبوت اور شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود بنا لےگا۔


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv