Social

جسٹس قاضی فائز عیسی کی وجہ سے ہی حکومتی اتحاد کو 26 ویں آئینی ترمیم لانے کا موقع ملا.بلاول بھٹو

اسلام آباد(نیوزڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی موجودگی کی وجہ سے ہی حکومتی اتحاد کو 26 ویں آئینی ترمیم لانے کا موقع ملا کیونکہ اتنا بڑا کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا 26 ویں آئینی ترمیم میں جس چیز کو سب سے زیادہ سیاسی رنگ دیا گیا اور اس کی بنیاد پر پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی وہ فوجی عدالتوں کا معاملہ تھا‘مجھے معلوم نہیں تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بنیں گے.
برطانوی نشریاتی ادارے”بی بی سی“سے انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ نون کی یہ خواہش تھی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل آٹھ میں تبدیلی کر کے اس آرٹیکل میں فوجی چیک پوسٹوں، چوکیوں اور عسکری تنصیبات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ان مقامات کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف چاہے وہ عام شہری ہی ہوں، فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانا ممکن ہو سکتاسابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ملک سے سیاسی انتقام کی روش کو ختم کرنا ہے تو پہلا قدم اس آدمی کو اٹھانا پڑے گا جو جیل میں بیٹھا ہوا ہے ان کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جس چیز کو سب سے زیادہ سیاسی رنگ دیا گیا اور متنازع بنایا گیا وہ فوجی عدالت کی اصطلاح کا استعمال تھا جو لوگ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر کام کرنے والے عمل میں شامل تھے یا میڈیا پر تجزیہ کرنے والے اور وہ پوری لابی جو اس عمل کو متنازع بنانے میں مصروف تھی انہوں نے فوجی عدالتوں کے ساتھ کالا سانپ کی بات جوڑ دی تھی اور کالے سانپ کے نام پر اس پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی.
انہوں نے کہا کہ نو مئی کو کچھ افراد نے کور کمانڈر ہاﺅس اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیااور حکومت نے فیصلہ کیا تھا صحیح تھا یا غلط کہ جو لوگ عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے میں ملوث ہیں ان پر آرمی ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل آٹھ کی تشریح کے تحت مقدمہ چلایا جائے اس دوران عدالت نے فیصلہ دیا جس نے 1950 سے چلے آنے والے قانون کو تبدیل کر دیا اور عدالت کی جانب سے آئین کی تشریح کے نتیجے میں حکومت کے فیصلے فوجی عدالتوں میں مقدمے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں آئیں عدالت نے یہ کیا کہ آرٹیکل آٹھ میں جہاں مسلح افواج کے اہلکار لکھا ہوا تھا وہاں اس پوائنٹ کو پکڑ کر کہا کہ اس کا مطلب صرف مسلح افواج کے اہلکار ہی ہیں اور اس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں صرف ان پر ہی مقدمہ چل سکتا ہے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عدالت نے یہ فیصلہ ایک سیاسی جماعت کو فائدہ دینے کے لیے دیا.
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری تجویز چھوٹی سی تھی جسے انتہائی متنازع بنا دیا گیا تجویز یہ تھی کہ جہاں مسلح افواج کے ارکان لکھا ہوا ہے اسے بدل کر مسلح افواج لکھ دیا جائے حکومت کی یہ خواہش ضرور تھی کہ اس کا ماضی سے اطلاق ہو اور اس میں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ عسکری تنصیبات اور فوجی چوکیاں بھی شامل کی جائیں مگر چوکیوں وغیرہ پر ہمارا بھی اعتراض تھا اور مولانا فضل الرحمان کا بھی اگر اتفاق رائے ہو جاتا تو آرٹیکل آٹھ میں ہم صرف ایک لفظ کی ترمیم کرنے جا رہے تھے اور اس ایک لفظ کو کالا سانپ بنا دیا گیا اور کالے سانپ کے نام پر اس پورے پراسیس کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی.
26ویں آئینی ترمیم سے متعلق 25 اکتوبر کی ڈیڈ لائن سیٹ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میںبلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی موجودگی میں ہی انہیں یہ ترمیم لانے کا موقع ملا اتنا بڑا کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک شخص ہے ایک شخص جو ہماری پوری تاریخ میں پارلیمنٹ کی اطاعت کرنے اور آئین کی پیروی کرنے کے لیے تیار تھا چاہے یہ اس کی ذاتی طاقت کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو لہٰذا ہمارے پاس ایک موقع تھا ہمارے پاس ایک چیف جسٹس تھاجو اپنے ساتھی ججوں کے دباﺅ کا مقابلہ کر سکتا تھا بلاول بھٹو نے کہاکہ کہ آرٹیکل 63-اے کا فیصلہ آئین پر مبنی نہیں تھا اور اس کے پیچھے سیاسی مقاصد تھے اور اگر اس نوعیت کے فیصلے نافذ ہو جاتے تو 26ویں آئینی ترمیم میں مشکلات پیش آتیں.
انہوں نے کہاکہ یہ کوئی نئی پوزیشن نہیں ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے کو پارلیمنٹ کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے خاص طور پر منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا ہمارا موقف واضح ہے کہ آرٹیکل 63-اے کا فیصلہ آئین پر مبنی نہیں تھا اور اس کے پیچھے سیاسی مقاصد تھے یہ ہمارے لیے حقیقت پسندانہ تھا کہ اگر یہ فیصلے نافذ ہو جاتے تو ہمارے لیے قانون سازی میں مشکلات پیش آتیںبلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کا تعلق کسی ایک شخص سے قائم کرنا درست نہیں ہے اس ترمیم کے مخالفین نے مختلف مواقع پر بے بنیاد الزامات‘ عائد کیے اور اس پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی یہ سیاسی الزامات ان مخالفین کے خوف کی وجہ سے تھے اسی خوف کے باعث انہوں نے ایک قابل احترام جج اور اس تمام عمل کو سیاسی رنگ دیا اب جب جسٹس منصور علی شاہ، چیف جسٹس نہیں بنے تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ پہلے سے ہمارا موقف تھا؟ مجھے نہیں پتا تھا کہ منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بنیں گے.
ایک سوال کے جواب میںبلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کے پاس نمبر پورے تھے،مولانا فضل الرحمن کے بغیر، اپوزیشن کی شمولیت کے بغیر بھی ہم اپنی مرضی کی ترمیم لا سکتے تھے مگر میرا یقین تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے مولانا فضل الرحمان صاحب اور مجھے اتفاق رائے کرنا ہو گا انہوں نے کہا کہ میں کچھ وجوہات کی بنا پر مان رہا تھا اور وہ وجہ جس کے لیے میں مان رہا تھا وہ یہ آئین ہے آج بھی پارلیمان میں دو اور سیاسی جماعتیں بھی ہیں جن کے لیے یہ آئین اتنا ہی مقدس ہے جتنا ہمارے لیے۔

ان میں ایک جے یو آئی ہے اور دوسری اے این پی.

چیف جسٹس کی تعیناتی کے عمل کے حوالے سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ہر جمہوری فیصلہ سیاست زدہ ہوتا ہے پاکستان میں سیاست کو جان بوجھ کے گالی بنا دیا گیا ہے ڈکٹیٹرشپ کی اور اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ آپ کا ایسا ذہن بنا دیں ہماری عدلیہ کی ذہن سازی تو کر دی گئی ہے کہ سیاست زدہ یا سیاست گالی ہے ہر جمہوری فیصلہ سیاست ہوتا ہے اور اس کی کریکٹرائزیشن کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلتا ہے.
انہوں نے کہا کہ دنیا میں اعلیٰ عدالتوں کے سینیئر ججز کی تعیناتی خود ججز نہیں کرتے بلکہ پارلیمان یا ایگزیکٹیو کی کمیٹیاں کرتی ہیں میں کہتا ہوں کہ میں کسی فرد کے لیے نہ تو کوئی ترمیم کرتا ہوں اور نہ ہی قانون سازی کرتا ہوں جہاں تک چیف جسٹس کی تعیناتی کا تعلق ہے تو پاکستان میں 18ویں آئینی ترمیم میں ہم نے اسے تبدیل کیا ہم نے بطور سیاسی جماعت یہ فیصلہ کیا کہ سینارٹی کی بنیاد پر یہ کام ہو پھر ہم نے دیکھا کہ کس طریقے سے سینیارٹی کے کونسپٹ میں ہمیں میڈیکوری ملی ہمیں اتھاریٹیرین ججز دیے گئے ہم وہ ملک بنے جہاں ججز سمجھتے ہیں کہ ہمارا آئین کاغذ کا ٹکڑا ہے کیا جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے خود نہیں کہا تھا کہ سینیارٹی کے ساتھ ساتھ میرٹ دیکھنا ضروری ہے؟.
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جسٹس منصور شاہ صاحب ایک نہایت قابل احترام شخصیت ہیں وہ آئین اور قانون کو مانیں گے اور اس معاملے میں نہ کوئی رکاوٹ بنیں گے نہ ان کا ایسا کوئی کردار ہو گا جس سے اپنا برادر جج یعنی نئے چیف جسٹس آف پاکستان کسی طریقے سے متنازع ہوں جہاں تک کردار کی بات ہے تو جسٹس یحییٰ آفریدی پر کوئی الزامات نہیں، کوئی تنقید نہیں ہو سکتی .


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv