Social

تحریک انصاف کا قافلہ ڈی چوک پہنچ گیا‘بشری بی بی کی قافلے کی قیادت اہم سیاسی پیش رفت. بشری بی بی کا خطاب

اسلام آباد(نیوزڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کا احتجاجی قافلہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ڈی چوک تک پہنچ گیا ہے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور نیم فوجی دستوں نے بھی مظاہرین کو روکا نہیں.

ڈپٹی کمشنر کے مطابق اس وقت صورتحال پرامن ہے تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کہ کیا حکومت ان مظاہرین سے مذاکرات کرے گی تحریک انصاف احتجاج شروع ہونے سے اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ وہ ہر صورت اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ کر عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج کریں گے تاہم وفاقی وزیرداخلہ نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا تھا کہ اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم عمران خان سے اس سلسلہ میں 24گھنٹوں کے دوران دو ملاقاتیں ہوئی ہیں.

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی بھی ایک کنٹینر پر سوار ابھی ڈی چوک کے لیے رواں ہیں مگر ان سے پہلے ہی پی ٹی آئی کے کارکنان کنٹینرز اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ڈی چوک تک پہنچے ہیں پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں مطالبات کی منظوری تک دھرنے کا اعلان کر رکھاہے واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے یہ مظاہرین سابق وزیراعظم عمران خان کی جیل سے فوری رہائی کا مطالبہ لے کر خیبرپختونخوا سے اسلام آباد آئے ہیں .
دوسری جانب سیاسی مبصرین بشری بی بی کی جانب سے قافلے کی قیادت کو اہم قراردے رہے ہیںاور ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اب شاید ”حقیقی فائنل راﺅنڈ“میں سنجیدہ ہے پچھلے تقریبا دوسال کے دوران کے دوران تحریک انصاف نے متعدداحتجاج کیئے مگر وہ اپنے ورکروں کی قوت کو استعمال کرنے میں ناکام نظرآئی. تجزیہ نگارو ں کا کہنا ہے کہ عوامی مقبولیت کے باوجود تحریک انصاف کا المیہ ہے کہ وہ سیاسی فیصلے کرنے میں ناپختہ سوچ رکھتی ہے ‘پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب اور خبیرپختونحواہ جیسے اہم صوبوں میں اپنی حکومتیں توڑنے اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دینے کے فیصلے کو تجزیہ نگار پی ٹی آئی کی بنیادی غلطی قراردیتے ہیں اور یہی غلطی جماعت کے اندراختلافات کا باعث بنی اور وسیع سیاسی تجربہ رکھنے والے سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویزالہی‘شیخ رشید احمد سمیت پارٹی کے اہم سیاسی راہنما کنارہ کشی اختیار کرگئے.
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کے دوران کھلی عدالت میں بشری بی بی کا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم پر عدم اعتماد کے اظہار سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ پارٹی کے اندر بڑے پیمانے پر اختلافات ہیں جن کا اظہار سابق وزیراعظم عمران خان بھی جیل میں پارٹی راہنماﺅں سے ملاقاتوں میں کرچکے ہیں ‘پارٹی کے متعدد سابق عہدیدار وں کی جانب سے بھی پارلیمان کے اندراور باہر پارٹی کی موجودہ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے .
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ بشری بی بی سیاست میں رہیں گی یا نہیں تاہم اس وقت ان کی پوزیشن بیگم کلثوم نوازوالی ہے جنہوں نے جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے اور نوازشریف کی گرفتاری کے بعد خود میدان میں نکل کر اپنے شوہرکی رہائی کے لیے جدوجہد کی تھی. پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاونٹس سے مسلسل بشریٰ بی بی کی ایسی ویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں جن میں وہ پی ٹی آئی کارکنوں کا جذبہ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں انہوں نے قافلے کی روانگی کہ بعد ایک مقام پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک خان ہمارے پاس نہیں آئیں گے، یہ مارچ ختم نہیں کریں گے میں آخری سانس تک کھڑی رہوں گی اور آپ نے میرا ساتھ دینا ہے.
تجزیہ نگاراحتجاج کی اس کال کو اہم قراردیتے ہوئے اس کا موزانہ کلثوم نوازکے احتجاج سے کررہے ہیں تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ بشری بی بی کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے تاہم کل شام تک یہ واضح ہوچکا تھا کہ عمران خان کی رہائی سمیت دیگر مطالبات کو لیے ہونے والے اس احتجاج کی قیادت بشریٰ بی بی ہی کر رہی ہیں انہوں نے کارکنوں کو متحرک کرتے ہوئے اپنے ایک اور خطاب میں کہا کہ میرے بچو اور میرے بھائیو آپ لوگوں نے میرا ساتھ دینا ہے جو نہیں دے گا تب بھی میں کھڑی رہوں گی کیوں کہ یہ صرف میرے شوہر(عمران خان) کی بات نہیں ہے یہ اس ملک اور اس ملک کے لیڈر کی بات ہے جواب میں کارکنوں نے پرجوش انداز میں نعرہ لگاتے ہوئے بشری بی بی کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کا ساتھ دیں گے بشری بی بی کا اس احتجاج میں یہی متحرک کردار حکومتی وزرا کے بیانات کا حصہ بھی بنا.
عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج کی کال دیے جانے اور توشہ خانہ کیس میں ضمانت پر رہائی کے بعد سے بشریٰ بی بی سیاسی منظرنامے پر کسی حد تک متحرک دکھائی دی ہیں سابق خاتون اول نے اپنے اس خطاب میں مقتدر حلقوں کو مخاطب کر کے عمران خان کی رہائی سے متعلق بھی ایک پیغام دینے کی کوشش کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ میں اداروں کو بھی یہ بتانا چاہتی ہوں کہ عمران خان طاقت میں آ کر کسی سے بدلہ لینے کی خواہش نہیں رکھتے جیل میں انہوں نے سیکھا ہے کہ طاقت میں آ کر معافی کا دروازہ کھلاا رکھتے ہیں جو بھی ان کے حوالے سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بدلہ لیں گے تو یہ سب جھوٹ ہے.
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ غیر معمولی حالات ہیں اور ان کے لیڈر عمران خان ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند ہیں ایسے میں علیمہ خان ہو، عظمیٰ خان ہو یا بشریٰ بی بی یہ سب ان کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سیاسی منظر نامے پر سامنے آئیں ہیں بشریٰ بی بی کے حالیہ بیانات یا پارٹی معاملات میں کردار کو ان کی سیاست میں انٹری کہنا کچھ قبل از وقت ہے بلکہ ان کا یہ کردار کارکنوں اور پارٹی کو متحرک رکھنے اور عمران خان کے خلا کو پر کرنے کے لیے ہے.
ماضی میں پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی کا تصور بھٹو خاندان، مسلم لیگ نون کا تصور شریف خاندان کے بِنا ادھورا ہے ایسے ہی پی ٹی آئی کے لیے عمران خان لازمی ہیں چونکہ اس وقت پی ٹی آئی کے لیے حالات غیر معمولی ہیں اور جب کوئی پارٹی سربراہ جیل میں قید ہو تو اس کے گھر والوں کو ہی سامنے آنا پڑتا ہے بشریٰ بی بی بھی اس وقت بالکل ویسے ہی سیاسی منظرنامے پر موجود ہیں جیسے ماضی میں نواز شریف کے جیل جانے کے بعد ان کی اہلیہ کلثوم نواز کچھ وقت کے لیے متحرک ہوئی تھیں.
ان کا کہنا ہے کہ موروثیت یہ نہیں کہ عمران خان کی جگہ اب ان کی بہنیں یا اہلیہ پارٹی معاملات میں متحرک ہیں بلکہ اگر وہ اپنے اہلیہ یا بہنوں کو کوئی عوامی عہدہ دیتے ہیں یا کسی سرکاری عہدے پر تعینات کرتے تو یہ موروثیت ہوتی موروثی سیاست وہ ہے جیسے بلاول بھٹو بنا کسی تجربے کے وزیر خارجہ بن گئے تھے یا مریم نواز شریف محض نواز شریف کی بیٹی ہونے کے ناطے وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں یہ عوامی عہدے ہیں جہاں ان لوگوں کو ایک دن کا بھی تجربہ نہیں کیا پیپلز پارٹی میں کوئی ایسا نہیں تھا جو وزیر خارجہ بن سکتا یا مسلم لیگ نون میں کوئی ایسا نہیں جو وزیر اعلیٰ بن سکتا.
انہوں نے کہا کہ بلاشبہ پاکستانی سیاست میں ہر جگہ مورثیت نظرآتی ہے یہاں تک کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی آدھی سے زیادہ نشستوں پر ایک ہی خاندان کے لوگ منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں اور کئی خاندانوں میں تو بھائی ‘بھائی کے مقابلے میںیا باپ بیٹا ایک دوسرے کے مقابل مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی نشست پر باپ اور صوبائی نشست پر بیٹا یا بیٹی تو معمولی بات سمجھی جاتی ہے ‘ایک دوسرے کے مخالف الیکشن لڑنے کا مقصدبھی یہی ہوتا ہے کہ نشست خاندان سے باہر نہ جائے.
ان کا کہنا تھا کہ ابھی پی ٹی آئی کے بارے میں ایسا کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا اگر دوبارہ اقتدار میں آکر عمران خان بشری بی بی یا اپنی بہنوں کو عوامی عہدوں پر تعینات کرتے ہیں تو پھر یہ موروثیت ہوگی تاہم ابھی تک ایسا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا.


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv