راولپنڈی(نیوزڈیسک)بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ ہماری مذاکرات کرنے کی پیشکش کا مذاق اڑایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ ہم نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں، مذاکرات کی پیشکش اور سول نافرمانی کی تحریک موخر کرنے کی بات ملک کے وسیع تر مفاد میں کی تھی، مذاکرات کی پیشکش کو ہماری کمزوری ہرگز نہ سمجھا جائے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئیٹر)پر بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی تحریک کے حوالے سے اپنے جاری کردہ پیغام میں کہا کہ حکومت اگر اس میں دلچسپی نہیں رکھتی تو ہم نے بھی مذاکرات کیلئے حکومت کی کنپٹی پر بندوق نہیں رکھی۔
جب تک میں زندہ ہوں ان افراد کے قتل عام کی تحقیقات کیلئے جدوجہد کروں گا اور ان کو انصاف دلوائے بغیر چین نہیں لوں گا۔
اب بھی اگر حکومت چاہتی ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک شروع نہ ہو تو ہمارے دونوں مطالبات پر ہم سے رابطہ کیا جائے یا ہمیں قائل کیا جائے کہ یہ مطالبات غیر آئینی ہیں اور ان پر بات ممکن نہیں۔ جیل میں ملاقات کیلئے مذاکراتی ٹیم کو دعوت دی ہے اور ان کے نام دئیے ہیں۔
اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ حکومت ان کو ملاقات کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حکومت سے دو مطالبات کئے ہیں جن میں پہلاانڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی اوردوسرا 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کا قیام ہے۔یہ دونوں مطالبات جائز ہیں اور اگر حکومت ان پر اتوار کے روز تک کوئی عمل درآمد نہیں کرتی تو سول نافرمانی کی تحریک کے پہلے مرحلے میں ترسیلات زر کے بائیکاٹ کا آغاز کر دیا جائے گا۔
ہم اس سلسلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ پاکستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں، ملک میں جمہوریت ، عدلیہ اور میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور ہر طرف جبر و فسطائیت کا دور جاری ہے لہٰذا ترسیلات زر کے بائیکاٹ کا آغاز کریں۔26 نومبر اور 8 فروری کو جس طرح تحریک انصاف کے کارکنان نے ہمت و جوانمردی کے ساتھ جبر کا مقابلہ کیا اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
26 نومبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن نہتے لوگوں پر سنائپرز کے ذریعے فائرنگ کی گئی ، جوان لوگوں کو زخمی اور شہید کیا گیا ۔کئی افراد تین ہفتے سے غائب ہیں۔ گمشدہ افراد کو ڈھونڈنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت جواب دے کہ اتنے افراد کہاں غائب ہیں؟ ہمارے لوگوں نے جمہوریت کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ اپنے پیغام میں بانی پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ ملک میں خون کی ہولی کھیلی جائے اور پارلیمان معمول کے مطابق چلتی رہے۔
ہمارے لوگ بالکل پر امن تھے قومی ترانہ پڑھتے ، فوجیوں کو گلے لگانے والے لوگوں پر فائرنگ کی گئی اور انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ شہید ہوئے انکے لواحقین صدمے میں ہیں۔ میں خود فائرنگ کی خبر سن کر شدید اذیت کا شکار رہا اور نیند کی گولی کھانے کے باوجود نہتی عوام پر تشدد کے کرب سے سو نہیں سکا۔ جن لوگوں نے ایک کھڑکی اور پتہ تک نہیں توڑا ان پر سیدھے فائر مارے گئے۔
1971ءمیں عوامی لیگ کے بعد تحریک انصاف دوسری جماعت ہے جسے اس قسم کے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا لیکن اسکے باوجود انتخابات میں تاریخی جیت حاصل کر کے اور 26 نومبر تک مسلسل جدوجہد جاری رکھ کر تحریک انصاف نے تاریخ رقم کی ہے۔ ایسا یحییٰ خان نے 25 مارچ 1971 کو بنگالی عوام کے ساتھ کیا تھا اسکے علاوہ ملک میں کسی پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا۔
حکومت بار بار جو الزام لگاتی ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک میں ملک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ یاد رکھیں یہ ملک کو نہیں اس بوگس پارلیمنٹ، بوگس انتخابات کے نتیجے میں بنی اسمبلی اور سینٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ حکومت لوگوں کے ووٹوں سے نہیں بلکہ سازش سے بنی ہے۔ جنرل باجوہ نے ہماری منتخب حکومت کے خلاف سازش کی اور پاکستان کو بیالیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔
اس حکومت نے آئی ٹی انڈسٹری اور دیگر شعبوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے عوام اس حکومت سے بد دل ہیں۔ معیشت تباہ حال ہے اور کاروباری طبقہ اور سرمایہ دار اپنا پیسہ بیرون ملک ٹرانسفر کر رہے ہیں۔بانی پی ٹی آئی کا اپنے پیغام میں یہ بھی کہنا تھا کہ میں بیرسٹر گوہر سمیت اپنی پارلیمانی پارٹی کو ہدایت دیتا ہوں کہ ان افرادکیلئے اسمبلی میں آواز بلند کریں۔
Comments