Social

5 رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کیں ہم ان دفعات کو کالعدم رکھیں توپھرشہریوں کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا .سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوزڈیسک)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی رکن جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کیلئے تھا کیا تمام سویلین کیساتھ وہی برتاﺅ کیا جاسکتا ہے جیسے آرمی پبلک سکول سانحہ میں کیا گیا،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی.
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد آرٹیکل آٹھ، پانچ اور آٹھ، تین ہے جو مختلف ہیں ان کو یکجا نہیں کیا جا سکتا جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے آپ کا نکتہ کل سمجھ آ چکا ہے آگے بڑھیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ جسٹس منیب کے فیصلے سے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہی سے شروع کریں آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے.
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں آرٹیکل 5 کے مطابق بھی حقوق معطل نہیں ہو سکتے خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 کے دو حصے ہیں ایک آرمڈ فورسز کا اور دوسرا سویلینز کا خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والا فیصلہ پڑھا اور موقف اپنایا کہ ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا کہ سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی.
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یا نہ کریں خواجہ حارث نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لئے ان کا کیس الگ ہے. جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے موجودہ کیس میں نو مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں آرمی ایکٹ میں سیویلنز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے یا نہیں یا کیا یہ صرف مخصوص شہریوں کے لیے تھا.
خواجہ حارث نے کہا عام تاثر اس سے مختلف ہے جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے عام تاثر کو چھوڑ دیں یہ بتائیں سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کے لیے تھاکیا تمام سویلین کیساتھ وہی برتاﺅ کیا جاسکتا ہے جیسے آرمی پبلک سکول سانحہ میں کیا گیا، کیا جب آرمی ایکٹ میں آتے ہیں تو کیا سارے بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں جس کے بارے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا اس میں بین الاقوامی پریکٹس کیا ہے، کیا آپ کے پاس اس کی کوئی مثال ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا میرے پاس مثالیں موجود ہیں آگے چل کر اس پر بھی بات کروں گا.
جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ ہمارے بہت سے جوان شہید ہوتے ہیں ہمیں شہدا کا احساس ہے سوال یہ ہے کہ ان پر حملہ کرنے والوں کا بھی کیا ملٹری ٹرائل ہوگا؟ کون سے کیسز ہیں جو آرٹیکل 8کی شق 3 کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے؟خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس میں ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ مستقبل میں کن لوگوں کا ٹرائل ہو سکتا ہے جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں ہے 5 رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں اگر ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو شہریوں کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہو گا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے اب آفیشل سکرٹ ایکٹ میں 2023 میں ترمیم بھی ہو چکی ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں کل جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لیے پوچھا تھا.
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے وہ قانون بنائے کہ کیا کیا چیز جرم ہے پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے اس جرم کا ٹرائل کہاں ہو گا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمے داری ہے آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے میرے خیال میں آئین سپریم ہے عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کی ٹرائل کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے.
سماعت کے اختتام پر حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آگئے عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم پر بلا لیا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی اور کہا کہ سانحہ 9 مئی کے 27 مجرمان تھے جن میں سے دو رہا ہوچکے پنجاب کی جیلوں میں اب 25 مجرمان ہیں تمام مجرمان کو یکساں حقوق فراہم کیے جارہے ہیں 10 روز میں دو بار اہل خانہ کی مجرمان سے ملاقات کرائی جاچکی ہے مجرمان کو گھر سے کھانا بھی مل رہا ہے حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ملاقات کرائی گئی ہے مگر ماں، باپ اور بہن بھائی کے علاوہ کسی سے نہیں ملنے دیا گیا ان قیدیوں کو عام قیدیوں کی طرح باہر نہیں نکلنے دیا جاتا.
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ملاقات بھی ہورہی گھر کا کھانا بھی مل رہا ہے آپ اور کیا چاہتے ہیں، باتوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا،جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے میں خود بھی 14 روز جیل میں رہا ہوں صبح نماز کے بعد باہر چھوڑ دیا کرتے تھے کچھ قیدی کھیل وغیرہ بھی کھیلتے تھے جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس جمال خان مندو خیل سے کہا صرف آپ کیلئے خصوصی رعایت دیتے ہوں گے.
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپنایا جیل میں تمام قیدیوں کو حقوق ملتے ہیں جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ قیدیوں کو باہر نکلنے دیں دھوپ لگوانے دیں اس میں کیا مسئلہ ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ باہر بھی نکلنے دیں گے تمام قیدیوں کا خیال بھی رکھا جائے گا.


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv