
اسلام آباد (نیئوزڈیسک )روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف آج منگل کو اپنے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے، جہاں بہت سے تجزیہ نگار اس دورے کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ ملکی میڈیا میں بھی اس دورے کا خوب چرچا ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں میں کہا کہ یہ کسی روسی وزیر خارجہ کا نو سال بعد پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
پاکستان کے ہزاروں جوان شہری روسی ویکسین خریدنے کی دوڑ میں
قریشی نے کہا، 'روس خطے کا انتہائی اہم ملک ہے، جس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خطے میں تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، 'پاکستان دیکھ رہا ہے کہ اس کے روس کے ساتھ معاشی اور دفاعی تعلقات کیسے آگے بڑھ رہے ہیں اور اسلام آباد نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی ماسکو کے ساتھ مل کر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
ہندوستان کے ساتھ بھی روس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ روس بھارت کو افغانستان میں قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا کرنے پر بھی آمادہ کر سکتا ہے۔‘‘
روس کی میزبانی میں افغان امن مذاکرات، کیا کچھ داؤ پر ہے؟
روسی وزیر خارجہ لاوروف اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
مشرق کی جانب رخ
سرد جنگ کے دور میں پاکستان اور اس وقت کے سوویت یونین کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔
لیکن اس جنگ کے اختتام کے بعد ماسکو اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات بتدریج بہتر تو ہوتے رہے مگر ان میں کوئی خاص گرم جوشی دیکھنے میں نا آئی۔ آخری مرتبہ روسی وزیر خارجہ نے 2012ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اسی سال صدر پوٹن نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا تھا۔ تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے روس کا دورہ کیا تھا۔
افغانستان میں فریقین فوراً جنگ بندی کریں، ماسکو امن کانفرنس کی اپیل
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید بہتر ہوئے ہیں، جنہیں کئی تجزیہ نگار بہت دلچسپی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس عمل کا مظہر قرار دیتے ہیں کہ اب پاکستان کی توجہ مشرق کی طرف ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ مشرق کی طرف دیکھنے کا عمل پاکستان کے لیے مثبت ہے۔
بھارت روس سے اربوں ڈالر کے 33 جدید ترین جنگی طیارے خریدے گا
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، 'امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ لہٰذا اب بہتر یہ ہے کہ پاکستان مشرق کی طرف دیکھے۔ اس کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور اب وہ روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان، ایران، روس، چین، ترکی اور وسطی ایشیا کے ممالک مل کر ایک نیا سیاسی بلاک قائم کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2021ء) روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف آج منگل کو اپنے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے، جہاں بہت سے تجزیہ نگار اس دورے کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ ملکی میڈیا میں بھی اس دورے کا خوب چرچا ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں میں کہا کہ یہ کسی روسی وزیر خارجہ کا نو سال بعد پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
پاکستان کے ہزاروں جوان شہری روسی ویکسین خریدنے کی دوڑ میں
قریشی نے کہا، 'روس خطے کا انتہائی اہم ملک ہے، جس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خطے میں تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، 'پاکستان دیکھ رہا ہے کہ اس کے روس کے ساتھ معاشی اور دفاعی تعلقات کیسے آگے بڑھ رہے ہیں اور اسلام آباد نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی ماسکو کے ساتھ مل کر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
ہندوستان کے ساتھ بھی روس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ روس بھارت کو افغانستان میں قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا کرنے پر بھی آمادہ کر سکتا ہے۔‘‘
روس کی میزبانی میں افغان امن مذاکرات، کیا کچھ داؤ پر ہے؟
روسی وزیر خارجہ لاوروف اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
مشرق کی جانب رخ
سرد جنگ کے دور میں پاکستان اور اس وقت کے سوویت یونین کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔
لیکن اس جنگ کے اختتام کے بعد ماسکو اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات بتدریج بہتر تو ہوتے رہے مگر ان میں کوئی خاص گرم جوشی دیکھنے میں نا آئی۔ آخری مرتبہ روسی وزیر خارجہ نے 2012ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اسی سال صدر پوٹن نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا تھا۔ تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے روس کا دورہ کیا تھا۔
افغانستان میں فریقین فوراً جنگ بندی کریں، ماسکو امن کانفرنس کی اپیل
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید بہتر ہوئے ہیں، جنہیں کئی تجزیہ نگار بہت دلچسپی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس عمل کا مظہر قرار دیتے ہیں کہ اب پاکستان کی توجہ مشرق کی طرف ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ مشرق کی طرف دیکھنے کا عمل پاکستان کے لیے مثبت ہے۔
بھارت روس سے اربوں ڈالر کے 33 جدید ترین جنگی طیارے خریدے گا
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، 'امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ لہٰذا اب بہتر یہ ہے کہ پاکستان مشرق کی طرف دیکھے۔ اس کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور اب وہ روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان، ایران، روس، چین، ترکی اور وسطی ایشیا کے ممالک مل کر ایک نیا سیاسی بلاک قائم کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2021ء) روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف آج منگل کو اپنے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے، جہاں بہت سے تجزیہ نگار اس دورے کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ ملکی میڈیا میں بھی اس دورے کا خوب چرچا ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں میں کہا کہ یہ کسی روسی وزیر خارجہ کا نو سال بعد پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
پاکستان کے ہزاروں جوان شہری روسی ویکسین خریدنے کی دوڑ میں
قریشی نے کہا، 'روس خطے کا انتہائی اہم ملک ہے، جس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خطے میں تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، 'پاکستان دیکھ رہا ہے کہ اس کے روس کے ساتھ معاشی اور دفاعی تعلقات کیسے آگے بڑھ رہے ہیں اور اسلام آباد نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی ماسکو کے ساتھ مل کر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
ہندوستان کے ساتھ بھی روس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ روس بھارت کو افغانستان میں قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا کرنے پر بھی آمادہ کر سکتا ہے۔‘‘
روس کی میزبانی میں افغان امن مذاکرات، کیا کچھ داؤ پر ہے؟
روسی وزیر خارجہ لاوروف اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
مشرق کی جانب رخ
سرد جنگ کے دور میں پاکستان اور اس وقت کے سوویت یونین کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔
لیکن اس جنگ کے اختتام کے بعد ماسکو اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات بتدریج بہتر تو ہوتے رہے مگر ان میں کوئی خاص گرم جوشی دیکھنے میں نا آئی۔ آخری مرتبہ روسی وزیر خارجہ نے 2012ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اسی سال صدر پوٹن نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا تھا۔ تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے روس کا دورہ کیا تھا۔
افغانستان میں فریقین فوراً جنگ بندی کریں، ماسکو امن کانفرنس کی اپیل
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید بہتر ہوئے ہیں، جنہیں کئی تجزیہ نگار بہت دلچسپی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس عمل کا مظہر قرار دیتے ہیں کہ اب پاکستان کی توجہ مشرق کی طرف ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ مشرق کی طرف دیکھنے کا عمل پاکستان کے لیے مثبت ہے۔
بھارت روس سے اربوں ڈالر کے 33 جدید ترین جنگی طیارے خریدے گا
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، 'امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ لہٰذا اب بہتر یہ ہے کہ پاکستان مشرق کی طرف دیکھے۔ اس کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور اب وہ روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان، ایران، روس، چین، ترکی اور وسطی ایشیا کے ممالک مل کر ایک نیا سیاسی بلاک قائم کر سکتے ہیں۔
Comments