
لاہور(نیوزڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے بینچ سے ضمانت پانے والے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی منی لانڈرنگ ریفرنس میں ضمانت پر جیل سے رہائی میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے کیونکہ عدالت عالیہ نے اب تک اپنا تحریری حکم جاری نہیں کیا ہے.
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 14 اپریل کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر اور سابق وزیر اعلی کے وکیل کے حتمی دلائل سننے کے بعد جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید غورال پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے فریقین کو بتایا تھا کہ انہیں فیصلے کے بارے میں جلد آگاہ کردیا جائے گا تقریبا 15 منٹ کے بعد عدالت کے عملے کا ایک ججز کے کمرے سے باہر آیا اور فریقین کو بتایا کہ اس درخواست کو 50 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض قبول کی گئی ہے.
ایک عہدیدار نے بتایا کہ بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس محمد سرفراز ڈوگر نے ایک صفحے کے مختصر آرڈر پر دستخط کیے تھے اور اسے دستخط کے لیے جسٹس اسجد جاوید غورال کو بھجوا دیا تھا جو تاحال زیر التوا ہے غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ جسٹس اسجد جاوید غورال نے ضمانت منظور کرنے کے احکامات سے اتفاق نہیں کیا اور اپنا فیصلہ لکھنے کے لیے فائل اپنے پاس رکھ لی،جج کے عملے نے صحافیوں کو بتایا کہ حکم میں کسی قسم کی تبدیلی کے بارے میں ان کے پاس کوئی ہدایت نہیں ہے.
تاہم لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر شہباز شریف کی درخواست کو”منظور“ لکھا ہے شہباز شریف کے وکیل ایڈوکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اگر ضمانت دینے کے حکم میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے تو انہیں عدالت کی طرف سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ عدالت کے عملے نے یہ تاثر نہیں دیا کہ مختصر حکم کی بجائے تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا، اگر اعلان کے بعد بینچ کے ممبر نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا تو یہ بے مثال ہوگا جمعے کے روز دونوں ججز نے سنگل بینچ کے طور پر کام کرنے کے لیے اپنی عدالتوں میں شرکت کی.
چیف جسٹس محمد قاسم خان کی جانب سے 19 اپریل کو شروع ہونے والے ہفتے کے لیے ججز کے نئے روسٹر کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید غورال کو بالترتیب ملتان اور بہاولپور بینچز پر تبادلہ کیا گیا ہے پرنسپل سیٹ پر نیب سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل نیا ڈویژن بینچ تشکیل دیا گیا ہے. اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر وکیل ظفر اقبال کالانوری نے کہا کہ اگر ڈویژن بینچ ضمانت کی درخواست پر الگ الگ فیصلہ دے دیتا ہے تو معاملہ ریفری جج کو بھیجا جائے گا جو دونوں متضاد فیصلوں کو دیکھنے کے بعد رائے دیتا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ جب قانونی طور پر کوئی حکم موجود نہ ہو، نہ ہی متفقہ اور نہ ہی کوئی اختلاف رائے رکھنے والا تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا.
شہباز شریف کو 28 ستمبر کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع منظور نہ کرنے پر ریفرنس میں گرفتار کیا گیا تھا جس نے ابتدائی طور پر 3 جون کو قبل از گرفتاری ضمانت منظور کی تھی وہ تین ہفتوں سے زیادہ عرصے تک نیب کی تحویل میں رہے جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے انہیں 20 اکتوبر کو عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا اس سے قبل نیب نے شہباز کو 5 اکتوبر 2018 کو آشیانہ اقبال ہاﺅسنگ اسکیم اور بعدازاں رمضان شوگر ملز کیس میں گرفتار کیا تھا دونوں ہی کیسز میں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں 17 فروری 2019 کو ضمانت پر رہا کردیا تھا.
Comments