Social

ریاست مدینہ میں جو جرنیل اچھی کارکردگی دکھاتا وہ اوپر آتا تھا۔ وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) : وزیراعظم عمران خان نے ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ریاست مدینہ میں جو جرنیل اچھی کارکردگی دکھاتا تھا وہی اوپر آتا تھا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ روز قومی رحمت للعالمين ﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پانامہ کیس میں کیا بتاؤں کس طرح کے جھوٹ بولے گئے، یہ کیس برطانوی عدالت میں ہوتا تو ان کو اسی وقت جیل میں ڈال دیا جاتا، مغرب اورپاکستان کے عدالتی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک قانون آزادنہیں ہوگاملک اوپرنہیں جا سکتا، برطانوی جمہوریت میں ووٹ بکنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، یہاں سب کو پتہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں پیسہ چلتا ہے، برطانیہ میں چھانگا مانگا جیسی یا مری میں بند کر کے ووٹ لینے کی سیاست نہیں ہوتی، اخلاقیات کا معیار نہیں تو جمہوریت نہیں چل سکتی۔

میں آخری سانس تک ملک میں انصاف اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتا رہوں گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بڑا عہدہ ملنا کسی کا پیدائشی حق نہ تھا، حضرت بلالؓ جو پہلے غلام تھے جو وزیر خزانہ بن گئے تھے، جس میں بھی صلاحیت ہوتی وہ ترقی کرتا تھا، انہوں نے لیڈرز پیدا کیے، سارے صحابہؓ لیڈر بن گئے، لیڈر بننے کےلیے صادق و امین ہونا ضروری ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی جنگ قانون کی بالادستی کو قائم کرنا ہے، جب تک یہ جنگ نہیں جیتیں گے، ملک میں نہ صحیح جمہوریت آئے گی اور نہ خوشحالی۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ برطانیہ میں خاندانی نظام تباہ ہو گیا، اسلام کے اندر پردے کا مؤثر نظام شادی کے تحفظ کے لیے ہے۔ ملک میں سیکس کرائم بڑھ رہا ہے جو بہت بڑا خطرہ ہے، میں جب برطانیہ گیا تو دیکھا کہ ہر 14 شادیوں میں ایک طلاق ہوتی تھی، اس کا سب سے زیادہ اثر معاشرے اور خاندانی نظام پر پڑا۔پردے کا اسلام کے اندر بہت بڑا تاثر ہے، پردے کا نظام شادی کے تحفظ کے لیے ہے، ہمیں اپنے بچوں، نوجوانوں اور خاندانوں کو بچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہالی ووڈ سے بالی ووڈ جانے والا کلچر ہمارے یہاں آتا ہے، جو بہت خطرناک ہے، بچوں کو موبائل فون کے ذریعے ہر چیز تک رسائی ہے، ہم اسے روک نہیں سکتے لیکن اس کلچر سے آگاہی تو دے سکتے ہیں، اس کے لیے ہم ایک اتھارٹی بنا رہے ہیں تاکہ اسکالرز لوگوں کی اصلاح کر سکیں۔ وزیر اعظم نے کہا کارٹون بچے کو بہت مختلف کلچر بتا رہا ہوتا ہے جہاں بڑوں کی عزت نہیں ہوتی، بچوں کو کلچر سے روشناس کرانے کے لیے ہم اس طرز پر کارٹونز بنائیں گے، ہمیں ایسے پروگرامز کرنے ہوں گے جو ہمارا کلچر سامنے لے کر آئیں۔
ان کا کہنا تھا یونیورسٹیز میں اسلامی تاریخ پر ریسرچ اور بحث کرانے کی ضرورت ہے، دین میں کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں ہے مگر ہم نوجوانوں کو راستہ دکھا سکتے ہیں، ہم کم سے کم اپنے بچوں کو صحیح اور غلط راستہ تو بتا سکتے ہیں۔ معاشرے کے حوالے سے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ جب تک طاقت ور قانون کے نیچے نہیں آتا معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا، ہمیں طاقت ور کو قانون کے نیچے لے کر آنا ہے۔
عید میلاد النبی ﷺکے موقع پر قومی رحمۃاللعالمین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ، انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے ہمیں توفیق ملی کہ 12ربیع الاول کو بھرپور طریقے سے منائیں۔ریاست مدینہ کا قیام فطری انقلاب تھا، لوگوں کی سوچ اور ذہن بدلے تھے، اللہ کاحکم ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے سیکھیں، ان کی سنت پر چلنے کاحکم ہماری بھلائی کیلئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں تو مسلمان اوپر جاتے ہیں، مدینہ کی ریاست ایک رول ماڈل ہے جو پوری دنیا میں پھیل گیا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ صادق اور امین ہونا لیڈر بننے کے لئے بہت ضروری ہے، بزدل انسان کبھی لیڈر نہیں بن سکتا، انسان مرنے، ذلت اور رزق جانے کے ڈر سے خوف کھاتا ہے، اللہ نے قرآن میں کہا کہ یہ تینوں چیزیں میرے ہاتھ میں ہیں، مسلمان جب دنیا میں پھیلے تو سب سے اہم چیز لیڈر شپ تھی، غلاموں کے ساتھ مغرب اور ہمارے رویے میں فرق دیکھ کر شرم آتی ہے۔
قومی رحمۃ اللعالمین اتھارٹی کیلئے بڑے اسکالرز کو جمع کررہے ہیں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی۔ انہوں نے کہا کہ ہر کوئی قانون کی بالادستی نہیں قائم کرسکتا، بنانا ریپبلک اسے کہتے ہیں جہاں قانون اور انصاف نہیں ہے، طاقتور ہمیشہ اپنے آپ کو اوپر رکھنے کیلئے سوچتا ہے، ریاست مدینہ جہاں دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک انسانیت کا نظام آیا۔
انہوں نے کہا کہ جو طاقتور ہوتا ہے وہ قانون سے خود کو بالاتر سمجھتا ہے، افغانستان کو فتح کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ انہوں نے انصاف کو اپنا رکھا تھا، ریاست مدینہ میں میرٹ کا سسٹم تھا جو بھی باصلاحیت تھا وہ اوپر جاتا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک ہیں جن میں سے صرف 30 یا 40 ہزار ہی پاکستان میں آکر سرمایہ کاری کرلیں تو ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہیں پڑے، اتنا ان کے پاس پیسہ ہے، ایک پاکستانی کو جانتا ہوں ، اس اکیلے کے پاس اتنا پیسہ ہے جتنا ہمارا آئی ایم ایف کا قرضہ ہے، وہ ترستے ہیں پاکستان آنے کےلیے لیکن پاکستان کا نظام انہیں یہاں نہیں آنے دیتا۔


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv