
کراچی (نیوز ڈیسک) : سندھ بار کونسل کے سیکریٹری عرفان علی مہر ایڈووکیٹ کے قتل سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں قتل کی کوئی وجہ تاحال سامنے نہیں آئی۔ عرفان علی ایڈووکیٹ قتل کے فوراً بعد پولیس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ مقتول کو آبائی دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا ہے۔ عرفان علی مہر کا تعلق شکارپور کے علاقہ گڑھی یاسین سے تھا، جسے تیغانی قبیلے کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔
سندھ میں کچے کے علاقے میں تیغانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے حکومت سندھ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے سر کی قیمت بھی مقرر کرچکی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ماضی میں بھی گڑھی یاسین میں معمولی وجوہات پر قتل و غارت گری معمول ہے۔
لیکن مقتول کے اہلخانہ نے ذاتی دشمنی کے امکان کو مسترد کر دیا۔ نجی ٹی وی چینل سماء نیوز سے بات کرتے ہوئے مقتول کے بھائی رضوان علی مہر نے کہا کہ عرفان علی مہر چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم شکارپور کے علاقے گڑھی یاسین، جو کہ مقتول کا آبائی گاؤں بھی ہے، سے حاصل کی اور شکارپور میں واقع کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کراچی آئے تھے اور یہاں گزشتہ 20 سال سے مقیم تھے۔
رضوان علی مہر نے کہا کہ عرفان نے 2 شادیاں کر رکھی تھیں۔ مقتول کی ایک بیوی کا تعلق آبائی گاؤں یعنی گڑھی یاسین جبکہ دوسری بیوی کا تعلق کراچی سے ہے۔ عرفان کے 2 بیٹوں اور ایک بیٹی سمیت 3 بچے ہیں۔ مقتول کے بھائی نے کچے کے ڈاکوؤں سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ تیغانی قبیلہ ان کی سرپرستی کرتا ہے۔ میرے بھائی کے قتل میں کچے کے ڈاکوؤں کا ہاتھ نہیں ہے۔
مقتول کے بھائی نے ارباب اختیار سے قاتلوں کی جلد گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ قاتلوں کو گرفتار کر کے جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ دوسری جانب ایس ایس پی ایسٹ قمر رضا جسکانی نے قتل کی تحقیقات سے متعلق بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں عرفان علی مہر کے قتل کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی۔ ایس ایس پی نے کہا کہ سیکریٹری ایس بی سی کے اہلخانہ سے بات بھی کی ہے لیکن انہوں نے بھی بتایا ہے کہ مقتول کی کسی سے خاندانی یا ذاتی رنجش نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ مقتول کا تعلق شکارپور سے تھا اور پولیس آبائی جھگڑے سے متعلق بھی تحقیقات کررہی ہے لیکن تاحال قتل کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آسکی۔ البتہ جائے وقوعہ سے تیس بور پستول کے تین خول ملے تھے جنہیں فارنزک کے لیے فارنزک ڈویژن بھجوادیا گیا لیکن تاحال رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ اگر فارنزک رپورٹ میں واقعہ میں استعمال ہونے والے اسلحے کی شناخت ہو گئی تو قتل میں ملوث گروہ کی نشاندہی ممکن ہو سکے گی۔
کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 03 دسمبر 2021ء) : سندھ بار کونسل کے سیکریٹری عرفان علی مہر ایڈووکیٹ کے قتل سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں قتل کی کوئی وجہ تاحال سامنے نہیں آئی۔ عرفان علی ایڈووکیٹ قتل کے فوراً بعد پولیس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ مقتول کو آبائی دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا ہے۔ عرفان علی مہر کا تعلق شکارپور کے علاقہ گڑھی یاسین سے تھا، جسے تیغانی قبیلے کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔
سندھ میں کچے کے علاقے میں تیغانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے حکومت سندھ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے سر کی قیمت بھی مقرر کرچکی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ماضی میں بھی گڑھی یاسین میں معمولی وجوہات پر قتل و غارت گری معمول ہے۔
لیکن مقتول کے اہلخانہ نے ذاتی دشمنی کے امکان کو مسترد کر دیا۔ نجی ٹی وی چینل سماء نیوز سے بات کرتے ہوئے مقتول کے بھائی رضوان علی مہر نے کہا کہ عرفان علی مہر چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم شکارپور کے علاقے گڑھی یاسین، جو کہ مقتول کا آبائی گاؤں بھی ہے، سے حاصل کی اور شکارپور میں واقع کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کراچی آئے تھے اور یہاں گزشتہ 20 سال سے مقیم تھے۔
رضوان علی مہر نے کہا کہ عرفان نے 2 شادیاں کر رکھی تھیں۔ مقتول کی ایک بیوی کا تعلق آبائی گاؤں یعنی گڑھی یاسین جبکہ دوسری بیوی کا تعلق کراچی سے ہے۔ عرفان کے 2 بیٹوں اور ایک بیٹی سمیت 3 بچے ہیں۔ مقتول کے بھائی نے کچے کے ڈاکوؤں سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ تیغانی قبیلہ ان کی سرپرستی کرتا ہے۔ میرے بھائی کے قتل میں کچے کے ڈاکوؤں کا ہاتھ نہیں ہے۔
مقتول کے بھائی نے ارباب اختیار سے قاتلوں کی جلد گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ قاتلوں کو گرفتار کر کے جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ دوسری جانب ایس ایس پی ایسٹ قمر رضا جسکانی نے قتل کی تحقیقات سے متعلق بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں عرفان علی مہر کے قتل کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی۔ ایس ایس پی نے کہا کہ سیکریٹری ایس بی سی کے اہلخانہ سے بات بھی کی ہے لیکن انہوں نے بھی بتایا ہے کہ مقتول کی کسی سے خاندانی یا ذاتی رنجش نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ مقتول کا تعلق شکارپور سے تھا اور پولیس آبائی جھگڑے سے متعلق بھی تحقیقات کررہی ہے لیکن تاحال قتل کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آسکی۔ البتہ جائے وقوعہ سے تیس بور پستول کے تین خول ملے تھے جنہیں فارنزک کے لیے فارنزک ڈویژن بھجوادیا گیا لیکن تاحال رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ اگر فارنزک رپورٹ میں واقعہ میں استعمال ہونے والے اسلحے کی شناخت ہو گئی تو قتل میں ملوث گروہ کی نشاندہی ممکن ہو سکے گی۔
Comments