
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اصل سوچ پروان چڑھانے کیلئے تھنک ٹینکس کی بہت ضرورت ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ بڑے ہوتے ہوئے دیکھا کہ 60 کی دہائی میں ہمارا معیاری پلاننگ کمیشن تھا جس سے ملک کی سب سے زیادہ معاشی ترقی ہوئی بلکہ ملائیشیا، جنوبی کوریا جیسے ممالک یہاں آئے اور پاکستان کو بطور ماڈل دیکھا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں تھنک ٹینکس کی ضرورت ہے ہم نے اپنے تھنک ٹینکس ختم کیے اور باہر کی سوچ کو ملک میں لاگو کیا۔ مغرب میں تو برداشت ہی نہیں ہے جبکہ ہماری قوم میں سب سے زیادہ برداشت ہے۔باہر سے ایک پروپیگنڈا سوچ پاکستان پر غالب ہوا اور اسی نے غلط تاثر قائم کر دیا۔
باہر بیٹھے لوگوں کو پاکستان کی جغرافیہ اور ثقافت کا علم نہیں اور وہ انتہا پسند کہہ دیتے ہیں۔
مغرب ہمارے خلاف جو بھی کہتا تھا ہمارے پاس مضبوط دفاع کے لیے کوئی ذرائع نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پستی وہاں سے شروع ہوئی جب انٹیلیکچوئل بنیاد کا خاتمہ، سوچنے کے عمل اور عقل کے استعمال کو کم کردیا اور ہم ایک غیر حقیقی ملک بننا شروع ہوگئے، باہر سے آنے والے خیالات کو اپنانا شروع کردیا، ہماری اپنی اصل سوچ ہی ختم ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کولڈوار اور نہ ہی کسی بلاک کا حصہ بننا چاہتے ہیں جبکہ سعودی عرب اور ایران کے معاملے پر دنیا نے ہمارے کردار کو سراہا۔
امریکہ اور چین کے درمیان بھی دوری ختم ہونی چاہئیے۔ جب آپ کے تھنک ٹینکس نہ ہو تو باہر سے خیالات لیے جاتے ہیں اور جو بھی رجحان پروان چڑھتا ہے ہم اس کے غلام بن جاتے ہیں اس لیے تھنک ٹینکس کی بہت ضرورت ہے۔ بجائے یہ کہ دنیا ہماری تشریح کرے ہم خود اپنی تشریح کریں، مجھے یہ دیکھ کر بہت تکیلف ہوتی تھی 11/9 کے بعد امریکا میں بیٹھے لوگ پاکستان پر بات کرتے تھے جنہیں یہاں کی سمجھ ہے، نہ عوام کو جانتے ہیں اور نہ ہی کلچر سے واقف ہیں اور وہاں بیٹھ کر انتہا پسندی، اسلامی بم جیسی باتیں کرتے تھے۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کے رویے پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا تنازع ہے ، ہم نے اقتدار میں آتے ہی بھارت سے بات چیت کی کوشش کی، لیکن میں محسوس ہوا کہ بھارت ہماری امن کی خواہش کو کمزوری سمجھ رہا تھا لیکن ہم نے پوری کوشش کی کہ بھارت سے بات ہو اور مودی سے ٹیلی فون پر بات بھی کی۔ آر ایس ایس کے نظریے نے بھارت میں تقسیم پیدا کی ہے اور آر ایس ایس نظریے کے ہوتے ہوئے بھارت کو دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے بھارت میں ایسی حکومت آئے جس سے ہم مذاکرات کریں۔
Comments