
اسلام آباد (نیوز ڈڈیسک) : چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک بار پھر پہلی خاتون جج سپریم کورٹ لانے کے لیے جسٹس عائشہ ملک کا نام تجویز کر دیا۔ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 6 جنوری کو ہو گا جس میں جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ لانے پر ایک بار پھر غور کیا جائے گا۔ستمبر میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں 4,4 کے تناسب سے جسٹس عائشہ ملک کی منظوری نہیں ہو سکی تھی۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس عائشہ ملک کو بطور جج سپریم کورٹ لانے کی تجویز مسترد کر دی تھی۔جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا بند کمرنے میں اجلاس سپریم کورٹ ججز بلاک کانفرنس روم میں چئیرمن جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبر فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں بیرون ملک ہونے کے سبب شریک نہیں ہو سکے تھے،جبکہ جسٹس مقبول باقر نے بزریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شرکت کی،جوڈیشل کمیشن اجلاس میں شریک وکلاء، نمائندہ ممبر پاکستان بار کونسل ایڈوکیٹ اختر حسین بھی اجلاس میں شریک ہوئے ،جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے غور کے بعد جسٹس عائشہ ملک کو بطور جج سپریم کورٹ لانے کی تجویز مسترد کر دی تھی۔
جبکہ اس حوالے سے اسلام آباد سے خواتین کے حقوق کے لیے ایک توانا آواز فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ خواتین کی نمائندگی بار ایسوسی ایشنز میں بھی ہونی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، 'وکالت ایک ایسا پیشہ ہے جہاں روایتی طور پر مردوں کا تسلط رہا ہے۔ عورتوں کے لیے بہت کم وہاں جگہ رہی ہے لیکن اب سول سروسز میں بھی خواتین کی بہت بڑی تعداد آ رہی ہے اور وہ بڑے پیمانے پر مقابلے کے امتحانات میں کامیاب ہو رہی ہیں جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین میں مطلوبہ صلاحیت موجود ہے اور اگر وہ چاہیں تو اپنی صلاحیت کا لوہا ہر شعبے میں منوا سکتی ہیں۔
حکومتی سطح پر خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کوٹا مقرر کرکے اس تعداد کو بڑھایا جائے۔‘‘ فرزانہ باری کے بقول اس طرح کی تقرریوں میں بار ایسوسی ایشنز کا بڑا کردار ہوتا ہے اور وہاں پر خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 'میرا خیال ہے کہ بار کے انتخابات میں جو مختلف گروپس حصہ لیتے ہیں ان پر یہ پابندی عائد کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے عہدے داروں کا ایک بڑا حصہ خواتین پر مشتمل کرے تاکہ خواتین کی بار ایسوسی ایشنز میں اچھی خاصی نمائندگی ہو جائے۔ نمائندگی مناسب ہوگی تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں خواتین کو مناسب نمائندگی مل سکے گی۔
Comments