
لاہور(نیوز ڈیسک) سابق ڈی آئی جی لاہور ڈاکٹر حیدراشرف نے کہا ہے کہ بیٹی کے دماغ کی سرجری کیلئے بیرون ملک رخصت منظور کرا کے گیا تھا، انصاف کا خون کیا گیا میرا کیس اب عدالت میں ہے. ڈاکٹر حیدر اشرف کی جانب سے جاری کردہ وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کے دماغ کی سرجری کے لئے بیرون ملک چھٹی مانگی تھی جس کے دماغ کے ڈاکٹرز نے تین آپریشن بتائے تھے اور باقاعدہ چھٹی کی منظوری کے بعد کینیڈا گیا تھا.
تاہم مجھے کہا گیا کہ میں دو دن کے اندر واپس وطن پہنچوں میں نے بتایا کہ کورونا پابندیوں کے باعث دو دنوں کے اندر واپسی ناممکن ہے دوسری دفعہ مجھے شوکاز نوٹس اس وقت بھیجا گیا جب میری بیٹی آپریشن تھیٹر میں تھی کوئی انکوائری نہیں کی گئی براہ راست شوکاز نوٹس دیدیا گیا جو کہ خلاف قانون ہے. نوکری سے برطرفی کی بڑی سزا کے لئے انکوائری افسر کے آگے ذاتی شنوائی پیشی ضروری ہے تاہم میرے کیس میں کسی انکوائری کے بغیر ہی یکطرفہ سزا سنا دی گئی انصاف کے حصول کیلئے پہلے ہی عدالت جا چکا ہوں ان کا کہنا تھا کہ وہ فل برائٹ اسکالر، ایل ایل ایم، پاکستان پولیس میڈل یافتہ افسر ہیں جنہیں ان کی خدمات کے لئے ستارہ امتیاز کے لئے بھی نامزد کیا گیا.
متعدداضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ پولیس افسر خدمات سرانجام دے چکے ہیں اپنے فرائض کی راہ میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے دو دفعہ زخمی بھی ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ لاہور پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے 10 نئے پولیس اسٹیشنز، تمام ڈولفن دفاتر، جوانوں کی رہائش کے لئے 200 فلیٹس کی تعمیر، نئے کنٹرول رومز، ہوٹل مانیٹرنگ سسٹم تشکیل دیا. لاہور پولیس کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر منتقلی 8330 کا نظام، ایس ایم ایس آگہی، ڈولفن، پیرو اور اینٹی رائٹ فورسز کا قیام ممکن بنایا جبکہ پولیس ٹریکنگ سسٹم اور پولیس انفراسٹرکچر کو بھی متعارف کرایا یاد رہے کہ سابق ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف کو مس کنڈکٹ پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا.
واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور میں ایک خوفناک سانحہ رونما ہوا جسے سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کے نام سے یاد کیا جاتاہے یاد کیجئے یہ وہ وقت تھا جب پولیس ہر طرف سے عوامی غیض و غضب کے دباﺅمیں تھی کوئی سینئر افسر لاہور تعینات ہونے کے لیے تیار نہیں تھا ایک تو تازہ تازہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن اوپر سے شہباز شریف جیسا سخت گیر ایڈمنسٹریٹر۔
سب افسر جانتے تھے کہ اِن حالات میں لاہور تعیناتی کا مطلب اپنی شامت کو آواز دینا ہے لیکن سخت کشیدگی اور تناﺅ کے اس ماحول میں ایک پولیس افسر نے معاملات کو ہینڈل کرنے کا بیڑا اٹھایا یہ ڈاکٹر حیدر اشرف تھے جنہوں نے ڈی آئی جی آپریشن کی پوسٹ سنبھالی اورشہباز شریف جیسے سخت ترین وزیر اعلیٰ کے ساتھ لاہور تعیناتی کا سب سے طویل وقت گذارا.
ادھر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حیدر اشرف نے لاہور میں ڈولفن فورس، پیروفورس، پولیس الرٹ سسٹم 8330، اینٹی الایٹ فورس اور پولیس ٹریکنگ سسٹم کو متعارف کرایا یہ پولیس میں ہونے والی وہ جدید اصلاحات تھیں جن کا اس سے پہلے کوئی تصور نہ تھا لاہو رمیں جب ایک مخصوص کیمونٹی کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تو حیدر اشرف قانون کی عمل داری ممکن بناتے ہوئے فرنٹ فٹ پر ہجوم سے نبرد آزما ہوئے جس دوران انہیں کافی زخم بھی آئے سنیئرصحافی اور لاہور پریس کلب کے سابق نائب صدر زاہدگوگی کا کہنا ہے کہ لاہورپولیس کی گزشتہ دس سال کی تاریخ میں حیدر اشرف کے دور میں جرائم کی شرح سب سے کم رہی جبکہ سٹریٹ کرائم پر انتہائی حیرت انگیز طریقے سے قابو پایا گیا.
انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازم حکومت کا نہیں ریاست کا ملازم ہوتاہے اسی لیے اسے ہر حکومت کے قانونی احکامات کی بجاآوری کرنا ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں جونہی نئی حکومت آتی ہے وہ سابقہ حکومت کے پولیس افسران کو اپنا دشمن گرداننے لگتی ہے ڈاکٹر حیدر اشرف کے ساتھ بھی یہی ہوا حکومت کو لگا کہ چونکہ حیدر اشرف نے شہباز شریف کے دور میں پرفارم کیا تھا اس لیے یقینا یہ شہباز شریف کے ساتھی ہیں.
ایڈیٹر اردو پوائنٹ میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار سال سے ڈاکٹر حیدر اشرف سے نیب تحقیقات کر رہا ہے مگر بات الزامات سے آگے نہیں بڑھ رہی اسی کیس میں ایک افسر، سابق سی سی پی اور لاہور امین وینس ریٹائرڈ ہوچکے ہیں جبکہ دوسرا افسر بدستور ڈیوٹی پر ہے ابھی تک ڈاکٹر حیدر اشرف سے وہی سلوک ہورہا ہے جو نواز شریف کے ساتھ شہزاد اکبر کرتے رہے ہیںبظاہر ثبوتوں کا ایک پلندہ، لیکن کام کی کوئی ایک چیز بھی نہیں.
سنیئرکرائم رپورٹر اور لاہور پریس کلب کے سابق سیکرٹری میاں عابد نے کہا کہ ڈاکٹر حیدر اشرف فل برائٹ سکالر شپ پر ’ایل ایل ایم‘ کرنے کینیڈا گئے جس کی باقاعدہ محکمانہ منظوری لی گئی اعلی تعلیم یافتہ افسرکو عزت وتوقیر دینے کی بجائے اس کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی جوکہ افسوسناک ہے انہوں نے کہا کہ اس دوران ان کی بیٹی کی سرجری تھی جس کے لیے انہوں نے محکمے سے صرف بیس دن کی اضافی چھٹی مانگی لیکن جواب ملا کہ صرف اڑتالیس گھنٹے میں واپس ڈیوٹی پر پہنچیں مگر کورونا کی وجہ سے فلائٹ اتنی جلدی میسر نہیں تھی مگر حکام نے صورتحال کو جاننے کے باوجود ایک قابل افسر کو یک جنبش قلم نوکری سے فارغ کر دیا.
زاہد گوگی نے کہا کہ ڈاکٹر حیدر اشرف نے بطور ڈی پی اوشیخوپورہ بھی خدمات سرانجام دیں اور ٹاپ ٹین اشتہاریوں کو گرفتار کیا انہیں انتہائی عامیانہ انداز میں فارغ کردیا گیا ایک دور ’واہنڈو‘ کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی طرف سے ایک بورڈ لگا ہوا ہوتا تھا جس پر تحریر تھا کہ ”پولیس اس بورڈ سے آگے نہ جائے“ کسی پولیس والے میں ہمت نہ تھی کہ وہ اس بورڈ کی حدود کراس کر سکے لیکن آر پی او ذوالفقار چیمہ کے حکم پر ڈاکٹر حیدر اشرف نے وہاں بھرپور آپریشن کرکے جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کردیابطور سی پی او فیصل آباد بھی ڈاکٹر حیدر اشرف کی کارکردگی آن ریکارڈ ہے جس میں کامیابیوں کا تناسب نمایاں ہے.
انہوں نے کہا افسرکسی حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا ملازمت ہوتا ہے اس نے منتخب ہوکر آنے والی حکومت کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے یہی ڈاکٹر حیدر اشرف نے کیا مگر ان پر شہباز شریف کے آدمی ہونے کا ٹھپہ لگا کر ان کے خلاف کاروائی شروع کردی گئی جو کہ افسوسناک ہے . میاں ندیم نے وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی کہ وہ معاملے کا نوٹس لیں ایک ایماندار اور قابل افسر کو صرف اس لیے سیاست کی بھینٹ نذر نہ ہونے دیا جائے کہ اس نے آپ کی مخالف جماعت کے دور میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اگر ایسے ہی ذاتی پسند ونا پسند کی بنا پر سول سروس اور پولیس سروس کے سنیئرافسران کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا رہا تو کوئی بھی افسراچھی کارکردگی دکھانے کی ”غلطی“نہیں کرئے گا انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حیدراشرف کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس سے پولیس فورس کا مورال بھی ڈاﺅن ہورہا ہے.
ط
Comments