
لاہور (نیوز ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری لانے کیلئے معاشی پالیسیوں کا تسلسل از حد ضروری ہے۔معاشی گروتھ ریٹ نہ بڑھنے کی وجوہات میں امپورٹ ایکسپورٹ میں بہت زیادہ گیپ اور پیداواری صلاحیت کا کم ہونا بھی ہے۔ مہنگائی نے اربن لوئر مڈل کلاس اور تنخواہ دار طبقہ کو زیادہ متاثر کیا ہے ۔
عام آدمی کی فلاح وبہبود اور آئی ایم ایف سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، یہ ایک طرح کا جہاد ہے اور انشاء اللہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے، انٹرنیشنل مارکیٹ کے مطابق ہمارے ہاں پٹرول کی قیمت 240روپے ہونا چاہئے لیکن ہم 150روپے پر دے رہے ہیں اور حکومت ہر ماہ 104ارب اپنی جیب سے دے رہی ہے ۔ ان خیالات کااظہار وفاقی وزیر خزانہ نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ‘ لاہور میں منعقدہ خصوصی نشست بعنوان ’’ 2022ء۔
پاکستانی معیشت کے احیاء کا سال‘‘ سے بطور مہمان خاص اپنے خطاب میں کیا۔ نشست کے آغاز پر قاری خالد محمود نے تلاوت جبکہ حافظ مرغوب احمد ہمدانی نے بارگاہ رسالتؐ میں ہدیہٴ عقیدت پیش کیا۔ نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیئے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1960ء کی دہائی میں مضبوط منصوبہ بندی کی وجہ سے ہمارا گروتھ ریٹ بہت بہتر جا رہا تھا ، صنعتیں لگ رہی تھیں اور ہم زرعی خود کفالت کی جانب بڑھ رہے تھے۔
پھر ہم نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری اور 1970ء کی دہائی میں ہم نیشلائزیشن کی طرف چل پڑے ، جس کا ہمیں بہت نقصان ہوا۔ ہماری معیشت جو 5تا7فیصد گروتھ ریٹ سے آگے بڑھ رہی تھی وہ گروتھ ریٹ کم ہو گیا۔ 1979ء میں ہم نے کسی اور کی جنگ میں حصہ لیا اس سے بھی معیشت کو نقصان ہوا۔ 1999ء میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا ، جنرل پرویز مشرف نے معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ان وجوہات کا تعین نہ کرسکے کہ ہر پانچ چھ سال بعد معیشت ڈی ٹریک کیوں ہوتی ہے۔
2018ء میں جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو اسے تجارتی خسارہ کا سامنا تھا۔ عمران خان مالی تعاون کیلئے دوست ممالک کے پاس گئے لیکن اتنا تعاوان نہ مل سکا جس سے استحکام آ جاتا، نتیجہ کے طور پر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ آئی ایم ایف اپنی شرائط پر قرض دیتا ہے۔ ہمیں بجلی و گیس کے نرخ بڑھانا پڑے ، کرنسی کی قدر کم ہو گئی۔ ہمارا معاشی گروتھ ریٹ 6.1سے 3.2فیصد پر آ گیا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معاشی بحران آ گیا۔ عمران خان حکومت نے کورونابحران کے دوران اچھے فیصلے کیے اور وزیراعظم کے اقدامات کی بدولت معاشی گروتھ ریٹ بڑھا ۔ کرنٹ اکائونٹ سرپلس تھا ، ہم نے آئی ایم ایف سے کہا کہ ہمیں معاشی گروتھ ہی چاہئے کیونکہ معیشت آگے بڑھے گی تو عام آدمی کو فائدہ ہو گا۔ معاشی پالیسیوں کا تسلسل از حد ضروری ہے۔
ہماری معاشی گروتھ ریٹ نہ بڑھنے کی وجوہات میں امپورٹ ایکسپورٹ میں بہت زیادہ گیپ اور پیداواری صلاحیت کا کم ہونا بھی ہے۔ ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں ،ریونیو بھی بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 22کروڑ کی آبادی میں سے صرف 30لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ ہم نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے۔ ہمای نصف آبادی زرعی سیکٹر سے وابستہ ہے ، زرعی سیکٹر میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری لانا ہو گی ۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت عام آدمی کو پٹرول اور ڈیزل کی مد میں بہت زیادہ سبسڈی دے رہی ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ کے مطابق ہمارے ہاں پٹرول کی قیمت 240روپے ہونا چاہئے لیکن ہم 150روپے پر دے رہے ہیں اور حکومت ہر ماہ 104ارب اپنی جیب سے دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا اس سال فصلوں کی بمپر کراپ ہوئی ہے ،دیگر معاشی اشاریے بھی مثبت نظر آ رہے ہیں اور انشاء اللہ امید ہے جلد معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو جائے گی اور معاشی گروتھ ریٹ 4.5سے 5فیصد ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی نے اربن لوئر مڈل کلاس، اربن مڈل کلاس اور تنخواہ دار طبقہ کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر پر ہم خاص توجہ دے رہے ہیں اور اس سیکٹر میں ترقی کی بہت گنجائش موجود ہے۔ ہم معیشت کی بہتری کیلئے مسلسل کام جاری رکھیں اور ٹریکل ڈائون کا انتظار نہ کریں۔ انہوں نے کہا صحت کارڈ‘کامیاب جوان پروگرام سمیت دیگر فلاحی پروگرام عام آدمی کی سہولت کیلئے شروع کیے ہیں۔
ہم ملک کے غریب عوام کو اوپر اٹھائیں گے تاکہ وہ معاشی طور پر مضبوط ہوں، آئی ایم ایف سے چھٹکارہ حاصل کریں گے۔ ہم ایک جہاد کر رہے ہیں اور انشاء اللہ ہم کامیاب ہوں گے۔ چیئرمین نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ میاں فاروق الطاف نے کہا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کے حصے میں کوئی قابل ذکر صنعت نہ آئی تاہم بانئ پاکستان قائداعظم ؒ کی ولولہ انگیز قیادت اور مشاہیر تحریک پاکستان کی زیرنگرانی بے لوث ماہرین معیشت کی ایک انتہائی قابل ٹیم نے اس نوزائیدہ مملکت کی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں دن رات ایک کر دیا۔
نتیجتاً پاکستان کی معیشت 1950ء تک مستحکم ہو گئی۔ جب پاکستان کا دوسرا پنج سالہ منصوبہ 1965ء میں ختم ہوا تو اس وقت ہماری معیشت ترقی پذیر ممالک کیلئے ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی اور 1966ء تک ہم جاپان کے بعد ایشیا میں ریٹ آف ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھے۔ شوکت ترین کی دانش مندانہ معاشی پالیسیوں کی بدولت پاکستانی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہوئی اور ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے ہمارے لیے سفید ہاتھی کا درجہ اختیار کر چکے ہیں جو قومی خزانے پر ناروا بوجھ بن چکے ہیں۔ اسی طرح گردشی قرضوں کا مسئلہ ہے جس سے نجات حاصل کرنا اشد ضروری ہے۔ ہمارے بیرونی قرضوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے جن سے گلوخلاصی کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ہماری داخلی خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ پر کوئی حرف نہ آئے۔
سامان تعیش کی درآمد پر فی الفور پابندی عائد کر کے بھی ہم قیمتی زر مبادلہ بچا سکتے ہیں۔اگر موجودہ معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنا دیا جائے اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عوامل پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ 2022ء پاکستان کے اقتصادی احیاء کا سال ثابت نہ ہو۔سینئر صحافی ودانشور مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پاکستان 22 کروڑ افراد کا ملک ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے ہر طرح کے قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے۔
ہمیں کشکول کو اتوڑنا ہو گا۔ شوکت ترین نے جو باتیں یہاں بیان کی ہیں اگر وہ ثابت قدمی سے اس پر قائم رہیں تو یہ اپنے معاشی اہداف حاصل کر لیں گے۔ شاہد رشید نے کہاکہ ہم پاکستان کے اسای نظریہ کی ترویج و اشاعت کیلئے کام کر رہے ہیں۔ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی جمہوری ملک دیکھنا چاہتے تھے، ایسا پاکستان جہاں عام آدمی کو بھی ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔
اس خصوصی نشست میں چیئرمین تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد‘ صدر سارک چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹریز افتخار علی ملک‘ ممتاز صنعتکار سکندر مصطفی خان‘سابق گورنر بلوچستان سردار گل محمد جوگیزئی‘ نامور بینکر عظمت ترین‘ بیگم مہناز رفیع‘ پروفیسر عابد شیروانی‘ مہر کاشف یونس‘رحمان عزیز چن‘ حارث عتیق‘ ڈاکٹر پروین خان‘ میاں سلمان فاروق سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات موجود تھیں ۔
Comments