
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں حکومتی سینیٹر سید علی ظفر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن آمنے سامنے گئے ۔سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور چیئرمین سینیٹر تاج حیدر کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے الیکشن آرڈیننس 2022کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔
اجلاس کو بتایاگیاکہ ممبر پارلیمنٹ،صوبائی اسمبلی کے ارکان یا دیگر عوامی عہدہ رکھنے والے افراد الیکشن مہم میں حصہ لے سکتے ہیں،الیکشن کمیشن نے اس آرڈیننس پر نظر ثانی کیلئے وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا ہے،پبلک آفس ہولڈرز کی الیکشن مہم میں حصہ لینے سے لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملے گا،وزراعظم،وزرائے اعلی،چیئرمین سینیٹ ،ڈپٹی چیئرمین ،سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے مہم میں حصہ لینے پر پابندی ہونی چاہی تاہم الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹرینز کو مشروط طور پر الیکشن مہم میں حصہ لینے کی اجازت کا موقف دیا ہے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ اس آرڈیننس کے دوررس اثرات ہونگے،جو بھی حکومت میں آئے اس کا غلط استعمال کرینگے۔ فار وق ایچ نائیک نے کہاکہ پارلیمنٹرین بھی پبلک ہولڈرز ہیں اس میں‘‘Namely’’ کر دے۔ وزیرمملکت پارلیمانی امور نے کہاکہ آرڈیننس اس وقت لاگو ہے،جب تک پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ اس کو کالعدم قرار نہ دے یہ قانون لاگو ہے۔ علی محمد خان نے کہاکہ قانون پر عملدرآمد کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،الیکشن کمیشن نے خلاف قانون وزیراعظم،وزیراعلی،گورنر اور وزرا کو نوٹسسز جاری کیے۔
انہوںنے کہاکہ آرڈیننس ابھی سینیٹ میں پیش ہونا ہے،وزیراعظم ،سپیکر ترقیاتی منصوبوں کا اعلان نہیں کر سکتے۔ چیئر مین کمیٹی تاج حیدر نے کہاکہ کمیٹی کو اختیار ہے کہ الیکشن ضابطہ کی خلاف ورزی کا نوٹس لے سکتی ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل89کے تحت صدر کو آرڈیننس کیاجراء کا اختیار دیتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ آرڈیننس اچھا ہے یا برا۔
علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ2017 کے تحت کوڈ آف کنڈیکٹ یا رول بنانے کا اختیار دیا،الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 89کو جمہوریت کیخلاف قرر دیکر اس پر عمل نہ کرنے کا کہا۔ سید علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر وزیراعظم،وزیراعلیٰ کے خلاف نوٹسز کو واپس لینا چاہیے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاکہ ہم نے بلا تفریق کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی پر نوٹسز جاری ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ مسئلہ یہ نہیں کہ وزیراعظم ،وزیراعلی،گورنر اور وزرا نے انتخابی مہم میں شرکت کی،حکومت نے اس آرڈیننس کی آڑ میں اپنی انتخابی مہم چلائی۔کامران مرتضی نے کہاکہ یہ ایک برا قانون ہے،اس کو واقعی طور پر برا کہنا چاہیے،اگر آج یہ حکومت میں ہے تو کل کو دوسرے بھی حکومت میں آسکتے ہیں۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ آرڈیننس، آرڈیننس ہوتاہے کوئی اچھا یا برا نہیں ہوتا،وفاقی وزراء کو ریلیف دینے کیلئے راتوں رات اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ چار ماہ کیلئے قانون سازی لانے کی ضرورت کیا تھی،اس کامقصد وزرا کے انتخابی مہم میں شرکت کیلئے راستہ بنانا تھا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ وفاقی وزراء نے اپنی حلف کی صریحاً خلاف ورزی کی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ اس قانون کی حمایت کرنا حکومت کے حق میں نہیں،یہ ملک قانون و آئین کے مطابق چلانا ہونا ورنہ جمہوریت کا نقصان ہو گا۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کرنا الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے،آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے راتوں رات عدالت سے رجوع کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ الیکشن ترمیمی آرڈیننس کی بھر پور مخالفت کرنی چاہیے،الیکشن کمیشن کے اختیارات صلب کرنے کی کوشش ہے۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ آرڈیننس اچھا یا برا اپنی جگہ،کیا یہ اب قانون ہے ۔
سینیٹر فاروق ایچ نے کہاکہ آرڈیننس اس وقت قانون ہے۔سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت الیکشن کمیشن کو با اختیار بنایا گیا ہے،آئین کے مطابق پارلیمنٹ کوئی بھی ایسا قانون نہیں بناسکتا جو کمیشن کے اختیارات کو کم کرے۔ انہوںنے کہاکہ الیکشن آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو ہاتھ بندھے گئے ہیں،حکومت نے غلط ارادے تو یہ آرڈیننس جاری کیا،جو اختیارپارلیمنٹ کے پاس نہیں وہ صدر کے پاس ہے۔
سینیٹر علی ظفر نے کہاکہ جب تک عدالت قانون کو کالعدم قرار نہ دے اس وقت یہ آرڈیننس نافذہے،اعلی عدالت کے علاوہ کوئی بھی فرد کسی بھی قانون کو اچھا یا برا نہیں قرار دے سکتا،آرڈیننس کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو ختم نہیں کیا جارہا۔ انہوںنے کہاکہ ہم الیکشن کے کنڈیکٹ کو ریگولیٹ کر سکتے ہیں،پارلیمنٹ ایک بنا لے تو کل کو ایک ادارہ اسکو ماننے سے انکار کردے۔
علی ظفر نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن نے یہ طے فیصلہ کر لیا ہے کہ آرڈیننس آئین کی خلاف ہے۔سینیٹر علی ظفر نے کہاکہ جب تک عدالت آرڈیننس کو معطل یا کالعدم قرار نہ دے اس وقت تک اس پر عملدرآمد کرنا لازمی ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جس سے الیکشن الیکشن کے اختیارات صلب ہو۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاکہ خیبرپختوخوا کے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے بعد 98ضابطے کی خلاف ورزیاں ہوئیںجس میں سے 61حکمران جماعت نے کی۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاکہ سیاسی جماعتیں انتخابی شیڈول کے اعلان کیبعد جلسے نہیں کر سکتے کارنر میٹنگ کا انعقاد کر سکتے ہیں۔کمیٹی نے کثرت رائے سے الیکشن آردیننس 2022 کو مسترد کر دیا۔حکومتی سینیٹرز علی ظفر اور ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے اختلافی نوٹ بھی سامنے آئے ۔
Comments