Social

وزیر دفاع خواجہ آصف کے انٹرویو پر شیخ رشید احمد کا رد عمل

راولپنڈی ( نیوز ڈیسک) وزیر دفاع خواجہ آصف کے انٹرویو پر شیخ رشید احمد کا رد عمل آگیا ۔ تفصیلات کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا ہے کہ میرے پاس بھی اطلاعات ہیں کہ ہم الیکشن کی طرف جارہے ہیں‘ کسی سے ملاقات نہیں ہوگی کسی سے رابطہ نہیں ہوگا ‘ 20 مئی سے پہلے الیکشن کی تاریخ آگئی تو عمران خان رفقاء سے مشاورت کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا نہ تمہیں اور نہ مجھے کسی سے بات کرنی ہے ، عمران خان نے کہا بات چیت کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے الیکشن کی تاریخ دی جائے ، الیکشن کا اعلان ہوگا تو کوئی بات ہوگی تب تک کسی سے ملاقات نہیں ہوگی اور کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہوگا ۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان نے آرمی چیف سے متعلق کوئی غلط بات نہیں کی ، آرمی چیف تو چوتھے ، پانچویں ، چھٹے اور آٹھویں نمبر والا بھی آیا ، دراصل مسلم لیگ ن نے سوچا کچھ اور تھا ہو کچھ اور گیا ہے ۔

خیال رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر دفاؑ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے نومبر سے پہلے ہم الیکشن ہی کروا دیں ، تب نگران حکومت ہو گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نومبر سے پہلے نگران حکومت چلی جائے اور نئی حکومت آ جائے۔ خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ نگران حکومت سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا سکتی ہے، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ خود ہی اعلان کر چکے ہیں کہ انہیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہئیے ، میں اس اعلان کو خوش آئند سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے قیاس آرائیوں کے دروازے بند ہوئے ، اس سے پہلے جنرل راحیل شریف نے بھی کبھی مدت ملازمت میں توسیع کا براہ راست یا بالواسطہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں فوجی سربراہ کی تعیناتی کا طریقہ کار اب انسٹی ٹیوشنلائز کرنا چاہئیے جیسے عدلیہ میں ہوتا ہے اور اس اس متعلق کوئی قیاس آرائی نہیں ہوتی ، میری ذاتی رائے ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو زیر بحث لانے کی بجائے طریقہ کار سو فیصد میرٹ پر ہو ، یہ ایک بڑا اور انتہائی اہم معاملہ ہے اس کو سیاسی بحث کا موضوع ہرگز نہیں بنانا چاہئیے۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر عمران خان اپنی ذاتی مرضی کرنا چاہتے تھے ، وہ چاہتے تھے کہ ایسا ہو کہ ان کے سیاسی مفادات اور حکمرانی کے تسلسل کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے جب کہ 2013 اور پھر 2016ء میں دو آرمی چیفس کی تعیناتی ہوئی اور اس وقت کے وزیراعظم نے میرٹ کی بنیاد فیصلے کیے اور فوج کی جانب سے ریکمنڈیشن کا مکمل احترام کیا حالاں کہ نوازشریف جنرل راحیل شریف کو نہیں جانتے تھے جب کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کے وقت انہیں وزیراعظم اس لیے جانتے تھے کہ وہ راولپنڈی کور کمانڈ کر رہے تھے مگر دونوں مرتبہ ادارے کی تجویز کا احترام کیا گیا ، اسی دائرے میں رہتے ہوئے دونوں سربراہان تعینات کیے گئے، ابھی بھی اس طرح میرٹ پر تعیناتی ہوگی۔


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv