Social

قومی اسمبلی نے آئین پاکستان کی خلاف ورزی اور غیر آئینی رویوں کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) قومی اسمبلی نے آئین پاکستان کی خلاف ورزی اور غیر آئینی رویوں کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی جبکہ قرارداد میں صدر مملکت سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے آئین کے تحفظ کا حلفاٹھایا ہے، صدر پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر آئینی طور پر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیں۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں محسن داوڑ نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں سے آئین پاکستان کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔
سپیکر، ڈپٹی سپیکر، گورنر پنجاب کی جانب سے آئین کی پامالی کا نوٹس لیا جائے۔ ایسے اقدامات سے ملک میں انتشار پیدا ہوگا۔ آئین پاکستان اس مملکت کو چلانے کے لئے ایک واضح دستاویز ہے ہمیں اس سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ بعد ازاں انہوں نے ایوان میں قرارداد پیش کی کہ قانون کی پابندی ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔

صدر مملکت کے عہدے کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے اپنے دفتر کا استعمال نہیں کرسکتےبلکہ صدر مملکت آئین کے دفاع اور تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔

قرارداد میں صدر مملکت سے کہا گیا کہ وہ آئین کے مطابق پارٹی سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض سرانجام دیں۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے قرارداد ایوان میں پیش کی جس کی اپوزیشن اراکین نے مخالفت کی۔ اپوزیشن رکن غوث بخش مہر نے کہا کہ آئین میں گورنر کو ہٹانے کے حوالے سے کوئی واضح شق نہیں ہے۔ وہ استعفی دے سکتا ہے لیکن اسے عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔
ہم اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین پاکستان مملکت خداداد پاکستان کو چلانے کا نظام وضع کرتا ہے۔ ہم سب پارلیمانی نظام کے تحت یہاں بیٹھے ہیں۔ مملکت کو آئین کے مطابق چلانے کے لئے اس میں اللہ کے قانون کے تابع اپنے منتخب ارکان کے ذریعے چلانے کی شق شامل ہے۔ کابینہ اور وزیراعظم نے ملک کا نظام چلانا ہوتا ہے۔
آرٹیکل 90, 48 سمیت جگہ جگہ یہ کہا گیا کہ صدر، وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس پر عمل کے پابند ہیں۔ 2012 میں اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں معاملہ گیا۔ حالیہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں بھی کہا گیا کہ صدر مملکت کا کردار برطانیہ کے جمہوری نظام میں ملکہ کی طرح کا ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدر نے فوری طور پر گورنر کو ان کے عہدے سے ہٹادیا۔
اب پہلے 15 دن پھر 10 دن کا وقت لیا گیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ ایوان بتائے کہ وہ اس ملک میں پارلیمانی نظام حکومت چاہتا ہے یا صدارتی نظام کا خواہشمند ہے۔ ہمارے پاس مملکت کے امور چلانے کے لئے 1973 کا آئین موجود ہے۔اگر ہم نے آئین کا دفاع نہ کیا تو ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر نے کہا کہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ بھیجا جائے، صدر کے عہدہ کا احترام کریں۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ صدر بھی پارلیمان کا حصہ ہیں۔ سپیکر کے بارے میں غیر جانبدار رہنے کا کہا جاتا ہے لیکن سیاسی وابستگی ہوتی ہے۔ سپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی، مذاق نہ بنایا جائے، ہارس ٹریڈنگ ہوئی، سربراہ مملکت کا ایک تقدس ہے۔ اچھی روایات کو لے کر چلیں۔ پارلیمان کا تقدس بحال کرنا ہے تو سربراہ مملکت اور اداروں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
سپیکر نے کہا کہ اس پر اٹارنی جنرل کی رائے لیتے ہیں۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ یہاں دستور پاکستان پر عملدرآمد کی بات ہو رہی ہے۔ ہم پارلیمانی نظام کو مزید مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ سودی نظام کا خاتمہ، اردو کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ آئین پر من و عن عمل کیا جائے، سود کو ختم کیا جائے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے آرٹیکل 48 ٹو کے حوالے سے کہا کہ اس کی تشریح جب بھی عدالتوں میں ہوئی یہ کہا گیا کہ آئین میں وزیراعظم کی منشا لکھا گیا ہے، صدر کی منشا نہیں۔
گورنر کی جو تعیناتی کرتا ہے وہی اس کو عہدے سے ہٹاتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ وفاقی حکومت کے پاس آئینی نمائندے کی تعیناتی کا اختیار ہو لیکن وہ اسے ہٹا نہ سکے۔ سپیکر نے قرارداد ایوان میں پیش کی جس کی کثرت رائے سے ایوان نے منظوری دیدی۔


اس خبر پر اپنی راۓ کا اظہار کریں

RATE HERE


آپ کا نام


آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

آپکا ای میل ایڈریس


آپنا تبصرا لکھیں
Submit

Comments

اشتہار



مزید پڑھیں
tml> Tamashai News Tv