گجرانوالہ کا 19 سالہ نوجوان علی ابرار اپنے دوستوں کے ساتھ مری کے قریب نیلم پکنک پوائنٹ پر پکنک منانے گیا تھا۔ جہاں اُس کی اپنے دوستوں سے موبائل فون اور 15 ہزار کے عوض شرط لگی کہ وہ دریا کو تیر کر عبور کرے گا۔ دوستوں کے اُکسانے پر اُس نے دریا میں چھلانگ لگادی اور یوں اُس نے اپنی جان دے دی۔
عجیب اتفاق ہے کہ 20 اگست بروز اتوار کے دن یہ دو ایسی خبریں سننے کو ملیں کہ جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق تھا۔ اُس دن ایک پاکستانی نوجوان راشد منہاس شہید کا 46واں یوم شہادت منایا جارہا تھا، جس نے اپنے وطن کی آبرو کی خاطر اپنی جان قربان کردی تھی، تو دوسری طرف اُسی دن ایک نوجوان علی ابرار نے فقط ایک موبائل اور 15 ہزار کے عوض اپنی جان دریائے نیلم کی نذر کردی۔ بظاہر تو دیکھنے میں اِن دونوں خبروں کا آپس میں کوئی گہرا رشتہ معلوم نہیں ہوتا لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی خبریں تھیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ پاکستانی نوجوان بہت کچھ کر دکھانے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے لیکن جب اِن نوجوانوں کو درست راستہ اور رہنمائی نہیں ملے گی تو ایسے نوجوان اُسی طرح شرطیں لگا کر اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے۔ چاہے وہ ون ویل موٹر سائیکل کا کرتب ہو یا دریا میں چھلانگ لگانے کا تماشا ہو، ہمارے نوجوان اِسی طرح اپنی صلاحیتوں کو منفی سرگرمیوں کی نذر کرتے رہیں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کی درست رہنمائی کی جائے۔
علی ابرار کے دوستوں کو تو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس نوجوان کے قاتل ہم اور آپ سب ہیں جو اِس معاشرہ میں رہتے ہیں لیکن معاشرہ کی بہتری کے لیے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرتے، والدین اپنے بچوں کی تربیت کی طرف سے غفلت برتتے ہیں، اساتذہ اپنے طلبہ پر توجہ نہیں دیتے، میڈیا ایسی سرگرمیوں کو پروان چڑھاتا ہے جس سے نوجوانوں میں بے راہ روی پھیلتی ہے۔ اگر ہم نے اپنا اپنا کردار ادا نہیں کیا تو یاد رکھیں وہ علی کل آپ کا اور میرا بھی ہوسکتا ہے۔
Comments