سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ جمہوری اور عوام کا مقدمہ بڑی عدالت میں لڑ رہا ہوں۔
مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا نے جاندار تحریک چلائی اور سختیاں برداشت کیں، جمہوریت کے استحکام کے لیے وکلا کا کردار خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاناما کیس کا ایک فیصلہ 20 اپریل کو اور دوسرا 28 اپریل کو سامنے آیا، پہلے فیصلے میں درخواستوں کو بے بنیاد کہا گیا اور دوسرے فیصلے میں وہ درخواستیں بامقصد ہوگئیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نااہلی سے متعلق وکلا کے سامنے مختلف سوالات رکھے۔
نواز شریف نے کہا کہ کبھی آج تک ایسا ہوا ہے کہ واٹس ایپ کال سے پراسرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو۔
کبھی آج تک اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نے اس قسم کی جے آئی ٹی تشکیل دی،
کیا قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق اور تفتیش کے لئے خفیہ ایجنسی کے ارکان کو تفتیش سونپی گئی۔
کیا آج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایسی جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے، کسی بھی پٹیشنر نے دبئی کی کمپنی اور میری تنخواہ پر نااہلی مانگی تھی،
کوئی بھی عدالت واضح ملکی قوانین کو نظرانداز کر کے عدالت کسی ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے۔
کسی ایک مقدمے میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ 4 فیصلے سامنے آئے ہوں، کیا کبھی وہ جج صاحباب پھر سے حتمی فیصلے والے بینچ میں شامل ہوئے ہوں جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں۔
کیا ان جج صاحبان کو بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر سماعت کر مرحلے میں شریک ہوئے۔
کیا کبھی پوری عدالتی تاریخ میں ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے ایسے جج کا تقرر کردیا جائے جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے دے۔
کیا سپریم کورٹ کے ایک جج کی نگرانی کے نیتجے ٹرائل کورٹ کا جج آزادی طریقے سے کام کرسکتا ہے۔
کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر عدالتی ہدایت دی جاسکتی ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنی نظرثانی اپیلوں میں اپنے ان سوالات اٹھایا ہے۔
اجلاس میں شرکت کے لئے آئے تو وکیلوں نے ان کے حق میں نعرے لگانا شروع کردیئے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزرا وکلا کنونشن میں شریک ہیں۔
Comments